You are currently viewing “جرأت کا علمبردار: حضرت خالد بن ولید کی وراثت، اللہ کی تلوار۔”

“جرأت کا علمبردار: حضرت خالد بن ولید کی وراثت، اللہ کی تلوار۔”

حضرت خالد بن ولید فرماتے ہیں آپؐ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے خالد!مجھے تمہاری شخصیت میں دانشمندی کے ایسے آثاردکھائی دیتے تھے جن کی بناء پرمجھے یہی امید رہتی تھی کہ تم خیر کے راستے پر آ ہی جاؤگے اس کے بعدمیں نے آپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی ،اور پھر میں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول ماضی میں دینِ اسلام کے خلاف میں جن کارروائیوں میں ملوث رہا ہوں  آپ اس سلسلے میں اللہ سے میرے لئے معافی کی دعاء فرمائیے‘‘

اس پر آپؐ نے فرمایا: اے خالد!قبولِ اسلام کے بعد گذشتہ تمام گناہ ختم ہوجاتے ہیں میں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول! اس کے باوجود بھی بس آپ میرے لئے دعائے مغفرت فرمائیے‘‘

تب آپؐ نے یوں دعاء فرمائی ’’اے اللہ!تو خالد بن ولید کی وہ تمام لغزشیں معاف فرما جو آج تک اس سے تیرے دین کے خلاف سرزد ہوتی رہی ہیں ‘‘۔ اور پھر میرے بعد عمرو بن العاص اور پھر عثمان بن طلحہ آگے بڑھے ،دینِ اسلام قبول کیا نیز رسول اللہ کے دستِ مبارک پربیعت کی

حضرت خالدبن ولیدؓ قبولِ اسلام سے قبل ہمیشہ مشرکینِ مکہ کے لشکرمیں شامل رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بڑی کارروائیوں میں ملوث رہے تھے لیکن اب قبولِ اسلام کے بعدان کے دل کی دنیایکسربدل چکی تھی،اب کفروشرک اورمسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی بجائے ان کی زندگی کاہرگوشہ ایمان کے نورسے جگمگانے لگاتھا اب اس نئی اوربدلی ہوئی زندگی میں ان کے قبولِ اسلام کے محض دوماہ بعدہی  قانونِ قدرت کے عین مطابق ایک بہت ہی بڑی  آزمائش ان کے سامنے  آکھڑی ہوئی۔

ہوایہ کہ ۶ھ؁میں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین ’’صلحِ حدیبیہ ‘‘کے نام سے جومشہور تاریخی معاہدہ طے پایاتھا اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ اورتمام مسلمانوں کومشرکینِ مکہ کی جانب سے جب قدرے بے فکری نصیب ہوئی تھی ،تب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  آپ ﷺ نے دعوتِ اسلام کے اس مبارک سلسلے کومزیدوسعت دینے کافیصلہ فرمایاتھا،اسی سلسلے میں ان دنوں مختلف فرمانرواؤں  حکمرانوں  امراء وسلاطین  اوروالیانِ ریاست کے نام خطوط ارسال کئے گئے تھے جن میں انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔

اسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے قاصدکی حیثیت سے حارث بن عمیرالأزدی ؓ ’’بُصریٰ‘‘کے فرمانرواکے نام تحریرفرمودہ  آپؐ کانامۂ مبارک لئے ہوئے جب مدینہ سے بُصریٰ کی جانب محوِسفرتھے  تب راستے میں ملکِ شام کی حدودمیں ’’بلقاء‘‘نامی ریاست (جوکہ سلطنتِ روم کے تابع تھی) کے فرمانروا شرحبیل الغسانی نے انہیں روکا،تشددکانشانہ بنایا،اورپھرانتہائی سنگدلی وسفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑنے کے بعدانہیں قتل کرڈالا

رسول اللہ ﷺ کوجب اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ملی تو آپؐ انتہائی رنجیدہ ہوگئے، کیونکہ کسی نہتے اوربے قصورانسان کو بالخصوص غیرملکی قاصداورسفارتی نمائندے کوناحق یوں قتل کرڈالنا یقینابہت ہی بڑاجرم تھا، مزیدیہ کہ یہ سفارتی  آداب کی سنگین خلاف ورزی بھی تھی

رسول اللہ ﷺ نے یہ انتہائی افسوسناک بلکہ المناک واقعہ پیش  آنے پریہ فیصلہ فرمایاکہ اب رومیوں کے خلاف تادیبی کارروائی ضروری ہوچکی ہے،چنانچہ تین ہزارافرادپرمشتمل ایک لشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کیاگیا۔اس موقع پر آپؐ نے اس لشکرکاسپہ سالار حضرت زیدبن حارثہ ؓ کومقررفرمایا،اوریہ وصیت فرمائی کہ زیدکے بعدسپہ سالاری کے فرائض جعفربن ابی طالب انجام دیں گے،اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ (جوکہ انصارِمدینہ میں سے تھے)انجام دیں گے،اوران کے بعدباہم مشاورت کے بعدکسی کوسپہ سالارمنتخب کرلیاجائے(گویارسول اللہ ﷺ کومن جانب اللہ خبردے دی گئی تھی کہ اس موقع پریہ تینوں حضرات یکے بعددیگرے شہیدہوجائیں گے ) اورپھریہ لشکرحضرت زیدبن حارثہ ؓ کی زیرِقیادت مدینہ منورہ سے سوئے منزل رواں دواں ہوگیا

طویل مسافت طے کرنے کے بعدجب یہ مبارک لشکرجزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین سرحدی علاقے میں پہنچاتووہاں ’’مؤتہ‘‘نامی مقام پر(جوکہ رفتہ رفتہ تقسیم درتقسیم کے سلسلوں کے بعدموجودہ ’’اُردن‘‘میں واقع ہے) صورتِ حال جونظر آئی وہ نہایت خلافِ توقع اورانتہائی پریشان کُن تھی،کیونکہ وہاں منظرکچھ ایساتھاکہ سامنے رومیوں کی ایک لاکھ فوج مقابلے کیلئے موجودتھی،مزیدیہ کہ اس سرحدی علاقے میں  آبادبہت سے عرب قبائل (غسان وغیرہ) جودینی  معاشی  وسیاسی طورپرسلطنتِ روم ہی کے تابع تھے ان کے ایک لاکھ جنگجوبھی یہاں رومی فوج کے شانہ بشانہ موجودتھے یعنی صورتِ حال یہ بنی کہ ایک طرف مسلمان محض تین ہزار جبکہ دوسری جانب ان کے بالمقابل دولاکھ مسلح اورچاق وچوبندجنگجؤوں پرمشتمل بہت بڑالشکرِجرار

sword-of-allah-chalo-masjid-com

اس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا،کسی نے کہا’’ہمیں اب مزیدپیش قدمی کی بجائے یہیں رک کر رسول اللہ ﷺ کواس صورتِ حال سے مطلع کرناچاہئے اور  آپؐ کی طرف سے اس بارے میں کسی فیصلے کاانتظارکرناچاہئے‘‘کسی نے کہا’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجناچاہئے کہ مزیددستے ارسال کئے جائیں ‘‘اسی دوران حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے فیصلہ کن اندازمیں مشورہ دیتے ہوئے کہا’’ہمارے لئے ناکامی کاکوئی سوال ہی نہیں ہے،ہمارے سامنے تودونوں ہی صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے  یا شہادت، یافتح لہٰذااس تمامترترددکی کیاضرورت ہے؟‘‘خالدبن ولیدؓاس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا،کسی نے کہا’’ہمیں اب مزیدپیش قدمی کی بجائے یہیں رک کر رسول اللہ ﷺ کواس صورتِ حال سے مطلع کرناچاہئے اور  آپؐ کی طرف سے اس بارے میں کسی فیصلے کاانتظارکرناچاہئے‘‘کسی نے کہا’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجناچاہئے کہ مزیددستے ارسال کئے جائیں ‘‘اسی دوران حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے فیصلہ کن اندازمیں مشورہ دیتے ہوئے کہا’’ہمارے لئے ناکامی کاکوئی سوال ہی نہیں ہے،ہمارے سامنے تودونوں ہی صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے  یا شہادت، یافتح لہٰذااس تمامترترددکی کیاضرورت ہے؟‘‘

چنانچہ سبھی نے اس مشورے کوقبول کیا،اوراس پرعمل کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی شروع کی فریقین میں کوئی توازن ہی نہیں تھا ایک طرف فقط تین ہزارمسلمان ، اوروہ بھی گھرسے بے گھر،وطن سے بہت دور،یہاں دشمن کی سرزمین پر جبکہ دوسری جانب دولاکھ جنگجو خوداپنی ہی سرزمین پراوراپنے ہی علاقے میں  مگراس کے باوجود دونوں جانب سے نہایت زورداریلغارہوئی زیدبن حارثہ ؓ نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے شہیدہوگئے تب رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت جعفربن ابی طالب ؓ نے قیادت سنبھالی،بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی صفوں کوچیرتے ہوئے دوراندرتک چلے گئے  آخراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروہاں پردیس میں ’’مؤتہ‘‘کے میدان میں انہوں نے بھی اپنی جان کانذرانہ پیش کیا اورپھریکے بعددیگرے ان دونوں عظیم ترین اوربہادرسپہ سالاروں کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے تیسرے سپہ سالارحضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی وہاں ’’مؤتہ‘‘کے مقام پرشہیدہوگئے

رسول اللہ ﷺ نے انہی تینوں برگزیدہ شخصیات کویکے بعددیگرے بالترتیب اس لشکرکاسپہ سالارمقررفرمایاتھا لہٰذااب ان تینوں کی شہادت کے بعدلشکرمیں بہت بڑاخلاء پیدا ہوگیاجوکہ انتظامی لحاظ سے یقینابہت ہی خطرناک بات تھی ،بالخصوص اس قدرنازک ترین صورتِ حال میں کہ جب جنگ اپنے پورے عروج پرتھی ،اوراسلامی لشکرانتہائی پریشان کن صورتِ حال سے دوچارتھا،یہی وہ انتہائی اہم بہت زیادہ نازک  اورفیصلہ کن مرحلہ تھاکہ جب جلدازجلدکسی مناسب ’’سپہ سالار‘‘کاانتخاب ازحدضروری تھا۔ اس دوران انصارِمدینہ کے خاندان’’بنوعجلان‘‘سے تعلق رکھنے والے ثابت بن اقرم نامی شخص نے برق رفتاری کے ساتھ لپک کر جھنڈا تھام لیا،جس پرسبھی لوگ اس کے اردگردجمع ہونے لگے،گویااب یہی ان کا نیاسپہ سالارہے لیکن وہ شخص کچھ دیردائیں بائیں نگاہ دوڑانے کے بعد آخرخالدبن ولیدؓ کومخاطب کرتے ہوئے ب آوازبلندپکارتے ہوئے یوں کہنے لگا’’جلدی کیجئے خالد یہ جھنڈا تھام لیجئے‘‘