اسلامی لشکرکے سپہ سالار
لیکن خالد اس چیز کیلئے قطعی آمادہ نہیں تھے، کیونکہ وہ توابھی محض دوماہ قبل ہی مسلمان ہوئے تھے،جبکہ اس لشکرمیں بڑی تعداد میں قدیم مسلمان نیز مہاجرین وانصارمیں سے اکابر صحابہ ٔ کرام موجودتھے بلکہ ایسے حضرات بھی تھے جنہیں حق وباطل کے درمیان اولین معرکہ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کا عظیم شرف نصیب ہوا تھا،اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود ثابت بن اقرم عجلانی جو بڑے ہی اصرارکے ساتھ خالد کو جھنڈا تھام لینے کی پیشکش کررہے تھے یہ خودبھی ’’بدری‘‘ تھے لہٰذا ثابت بن اقرم ؓ کی طرف سے اس اصرارکے جواب میں خالدؓ نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا’’میں یہ جھنڈا نہیں تھام سکتا، آپ خوداس کے زیادہ حقدار ہیں ، کیونکہ آپ عمرمیں مجھ سے بڑے ہیں ،نیزقبولِ اسلام میں آپ کو مجھ پر سبقت حاصل ہے، اورسب سے اہم بات یہ کہ آپ تو ’’بدری‘‘ہیں ‘‘ تب ثابت بن اقرم ؓ نے بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ قطعی اور دوٹوک انداز میں کہا’’خالد!اللہ کی قسم!یہ جھنڈا میں نے محض اسی لئے تھاما تھا کہ میں اسے آپ کے حوالے کرسکوں ‘‘اور پھر انہوں نے مجمع کی جانب استفہامیہ اندازمیں دیکھتے ہوئے ان سبھی سے پوچھا’’ آپ سب کو منظور ہے؟‘ ‘جواب میں ہرطرف سے یہی صدا آئی ’’منظور ہے‘‘ تب حضرت خالدبن ولیدؓنے آگے بڑھ کر حضرت ثابت بن اقرم ؓکے ہاتھ سے جھنڈالے لیا اور یوں اسلامی لشکرکے سپہ سالار کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی۔
جنگی تدبیر
یہی موقع تھاجب سلطنتِ روم کے اس علاقے ’’مؤتہ‘‘سے تقریباًڈیڑھ ہزارمیل کے فاصلے پر مدینہ منورہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے بذریعۂ وحی اپنے حبیب ﷺ کو صورتِ حال کی اطلاع دی گئی،جیساکہ حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں ’’رسول اللہ ﷺ نے (مدینہ میں )لوگوں کوزید جعفر اورابن رواحہ کی شہادت سے آگاہ کیا،حالانکہ اُس وقت تک کسی اورذریعے سے یہ خبرمدینہ نہیں پہنچی تھی چنانچہ آپؐ نے فرمایا ’’پہلے زید نے جھنڈا تھاما ،اور وہ شہید ہوگئے،ان کے بعدجعفر نے جھنڈا تھاما اور وہ بھی شہید ہوگئے، اور پھر ابن رواحہ نے جھنڈا تھاما اور وہ بھی شہید ہوگئے،یہ کہتے ہوئے آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے،اس کے بعد آپؐ نے فرمایا ’’اب جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوارنے تھام رکھا ہے‘‘ اُدھر میدانِ کارزار میں حضرت خالدبن ولیدؓ نے جب سپہ سالاری کے فرائض سنبھالے تو صورتِ حال انتہائی نازک تھی انہیں اس حقیقت کا بخوبی احساس اورمکمل ادراک تھاکہ یہ تو سِرے سے کوئی جنگ ہی نہیں کیونکہ تعداد کے لحاظ سے فریقین میں زمین و آسمان کافرق تھا،مقابلے کایافتح کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا لہٰذااس انتہائی سنگین اور نازک ترین صورتِ حال میں قیادت کی یہ بڑی بھاری ذمہ داری سنبھالتے ہی انہوں نے فوری طور پر اپنے دل میں یہ اصولی فیصلہ کرلیاکہ اب فتح ہمارامقصدنہیں ہے، بلکہ اب اصل مقصد محض یہ ہے کہ کسی طرح تمام لشکرکواس اتنی بڑی مصیبت سے اور آفتِ ناگہانی سے بحفاظت نکال لیاجائے ورنہ بصورتِ دیگر تمام لشکر کا خاتمہ یقینی ہے ،جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بہت بڑی بدنامی ہوگی، سیاسی عسکری نفسیاتی غرضیکہ ہرلحاظ سے یہ چیزمسلمانوں کیلئے بڑے نقصان کاسبب بن جائیگی جبکہ دشمنوں کے حوصلے بہت بلندہوجائیں گے لہٰذا اب اصل مقصود فقط یہ تھاکہ کسی طرح تمام لشکر کو یہاں سے اس اندازمیں بحفاظت نکال لیاجائے کہ دشمن پراصل حقیقت ظاہر نہ ہوسکے اور وہ اسے مسلمانوں کی پسپائی کی بجائے محض جنگی چال ہی سمجھتا رہ جائے ظاہر ہے کہ اس مقصد کیلئے کوئی تدبیر دن کی روشنی میں دشمن کی نگاہوں کے سامنے تو اختیار نہیں کی جاسکتی تھی
حضرت خا لد بن ولید کی شجا عت و بہا ری کے جو ہر
لہٰذاحضرت خالدبن ولیدؓنے وہ تمام دن محض تین ہزار افراد پر مشتمل اس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دو لاکھ جنگجؤوں پرمشتمل اس لشکرِجرار کے مقابلے میں گذارا نہایت کامیابی کے ساتھ دشمن کی اتنی بڑی فوج کو بلکہ اس پورے سمندر کو روکے رکھا اُس روزحضرت خالدبن ولیدؓ نے شجاعت وبہادری کے ایسے جوہردکھائے کہ اس سے قبل چشمِ فلک نے ایسے مناظرنہیں دیکھے ہوں گے اُس روز دن بھر ان کی جو کیفیت رہی اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی کیاجاسکتا ہے کہ اُس روزمسلسل تلوارچلاتے چلاتے ان کے ہاتھوں میں ایک دو نہیں بلکہ نو تلواریں ٹوٹیں اور جب رات کا اندھیرا ہر طرف چھانے لگا تو اس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت خالد بن ولیدؓنے نہایت سرعت کے ساتھ راتوں رات اپنے لشکرمیں بہت سی تبدیلیاں کیں جس کانتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے دن جب صبح کا سورج طلوع ہوا تو رومیوں کواپنے سامنے مسلمانوں کے لشکرمیں سب کچھ بدلا ہوا نظر آیا،تب وہ یہ سمجھے کہ ضرور مسلمانوں کے لشکرمیں تازہ دم دستے آپہنچے ہیں مزید یہ کہ اسلامی لشکرکے عقب میں وقفے وقفے سے بڑے پیمانے پرگردوغبار اٹھتا ہوا نظر آنے لگا،جوکہ حضرت خالدؓ کے حکم پربہت سے مسلمان گھڑسوارجان بوجھ کرخودہی اڑا رہے تھے اس کااثریہ ہوا کہ رومی سمجھے کہ ابھی پیچھے کوئی مزید بڑا لشکر بھی چلا آرہا ہے ، اور تب وہ مزید خوفزدہ ہوگئے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے جب دشمن کے لشکرمیں پریشانی اور خوف کے آثار محسوس کئے تو اب انہوں نے اس بڑی تبدیلی سے فوری طور پر فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لشکرکوپیچھے ہٹنے کی ہدایت کی،اور اس چیز کا بھرپور خیال رکھاکہ یہ پیچھے ہٹنے کاعمل بتدریج اورخوب منظم طریقے سے ہو، کوئی افراتفری کے آثار نمایاں نہ ہوں بھگدڑ کا ماحول نظر نہ آئے،نیز یہ کہ دشمن مسلسل اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہ پسپائی نہیں ہے ،بلکہ دشمن کو پھنسانے اور گھیرنے کیلئے یہ کوئی بڑی جنگی چال اور حکمتِ عملی ہے۔
بڑی جنگی چال اور حکمتِ عملی
چنانچہ مسلمان یوں انتہائی منظم طریقے سے بتدریج پیچھے ہٹتے گئے،یہ منظر دیکھ کر دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ مسلمان اس طرح ہمیں اپنے تعاقب پر ورغلا رہے ہیں ،تاکہ ہم مسلسل ان کاتعاقب کرتے ہوئے جزیرۃ العرب کے صحرائی علاقے میں جا پہنچیں جہاں ان مسلمانوں کاراج ہوگا،تب یہ ہمیں گھیرلیں گے، اور پھر وہاں سے زندہ سلامت واپسی ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگی،یا تو ہم وہاں ان مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے،یا پھر اُس بھیانک صحرا میں بھٹک جانے کے بعد بھوکے پیاسے سسک سسک کردم توڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اسی خوف اور اندیشے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے تعاقب سے گریز کرتے رہے، اور یوں حضرت خالدبن ولیدؓ پورے اسلامی لشکر کو بحفاظت وہاں سے نکال لانے میں پوری طرح کامیاب اور سرخرو رہے اس طرح رومیوں پر نیز دوسرے بہت سے بیرونی و اندرونی کھلے ہوئے اورچھپے ہوئے ہرقسم کے دشمنوں پر مسلمانوں کارعب برقرار رہا حضرت خالدبن ولیدؓ کے قبولِ اسلام کے فوری بعدپیش آنے والی یہ صورتِ حال فنونِ حرب وضرب میں ان کی بے مثال مہارت نیز کامیاب جنگی حکمتِ عملی کا بڑا ثبوت تھیبڑی جنگی چال اور حکمتِ عملی چنانچہ مسلمان یوں انتہائی منظم طریقے سے بتدریج پیچھے ہٹتے گئے،یہ منظر دیکھ کر دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ مسلمان اس طرح ہمیں اپنے تعاقب پر ورغلا رہے ہیں ،تاکہ ہم مسلسل ان کاتعاقب کرتے ہوئے جزیرۃ العرب کے صحرائی علاقے میں جا پہنچیں جہاں ان مسلمانوں کاراج ہوگا،تب یہ ہمیں گھیرلیں گے، اور پھر وہاں سے زندہ سلامت واپسی ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگی،یا تو ہم وہاں ان مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے،یا پھر اُس بھیانک صحرا میں بھٹک جانے کے بعد بھوکے پیاسے سسک سسک کردم توڑنے پر مجبور ہو جائیں گے اسی خوف اور اندیشے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے تعاقب سے گریز کرتے رہے، اور یوں حضرت خالدبن ولیدؓ پورے اسلامی لشکر کو بحفاظت وہاں سے نکال لانے میں پوری طرح کامیاب اور سرخرو رہے اس طرح رومیوں پر نیز دوسرے بہت سے بیرونی و اندرونی کھلے ہوئے اورچھپے ہوئے ہرقسم کے دشمنوں پر مسلمانوں کارعب برقرار رہا حضرت خالدبن ولیدؓ کے قبولِ اسلام کے فوری بعدپیش آنے والی یہ صورتِ حال فنونِ حرب وضرب میں ان کی بے مثال مہارت نیز کامیاب جنگی حکمتِ عملی کا بڑا ثبوت تھی