You are currently viewing سیرت النبی،مقدس مسجد نبوی کی تعمیر میں صحا بہ کا حصہ

سیرت النبی،مقدس مسجد نبوی کی تعمیر میں صحا بہ کا حصہ

حضور اکرم  نے ارشاد فرمایا مجھے مسجدوں کو سجانے کا حکم نہیں دیا گیا اسی سلسلے میں ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں قیامت قائم ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں آرائش اور زیبائش کرنے لگیں گے جیسے یہود اور نصاری اپنے کلیساؤں اور گرجوں میں زیب و زینت کرتے ہیں ۔

مسجد نبوی کی چھت کھجور کی چھال اور پتوں کی تھی اور اس پر تھوڑی سی مٹی تھی ۔ جب بارش ہوتی تو پانی اندر ٹپکتا … یہ پانی مٹی ملا ہوتا… اس سے مسجد کے اندر کیچڑ ہو جاتا ۔ یہ بات محسوس کرکے صحابہ کرام نے عرض کیا: ” یا رسول اللہ ! اگر آپ حکم دیں تو چھت پر زیادہ مٹی بچھا دی جائے تاکہ اس میں سے پانی نہ رسے  اور مسجد میں نہ ٹپکے

آپ  نے ارشاد فرمایا نہیں  یونہی رہنے دو

مسجد کے تعمیر کے کام میں تمام مہاجرین اور انصار صحابہ نے حصہ لیا ۔ یہاں تک کہ خود حضور نبی کریم  نے بھی اپنے ہاتھوں سے کام کیا ۔ آپ  اپنی چادر میں اینٹیں بھر بھر کر لاتے یہاں تک کہ سینہ مبارک غبار آلود ہو جاتا ۔ صحابہ کرام  نے آنحضرت  کو اینٹیں اٹھاتے دیکھا تو وہ اور زیادہ جانفشانی سے اینٹیں ڈھونے لگے ۔  یہاں اینٹوں سے مراد پتھر ہیں ۔ ایک موقع پر آپ  نے دیکھا کہ باقی صحابہ تو ایک ایک پتھر اٹھا کر لا رہے ہیں اور حضرت عمار بن یاسر دو پتھر اٹھا کر لا رہے تھے تو ان سے پوچھا: “عمار ! تم بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ایک ایک پتھر کیوں نہیں لاتے

انہوں نے عرض کیا اس لیے کہ میں االلہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب چاہتا ہوں ۔”

اس لیے کہ میں االلہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب چاہتا ہوں ۔” حضرت عثمان بن مظعون بہت نفیس اور صفائی پسند تھے ۔ وہ بھی مسجد کی تعمیر کے لیے پتھر ڈھو رہے تھے ۔ پتھر اٹھا کر چلتے تو اس کو اپنے کپڑوں سے دور رکھتے تاکہ کپڑے خراب نہ ہوں ۔ اگر مٹی لگ جاتی تو فوراً چٹکی سے اس کو جھاڑنے لگ جاتے ۔

masjid-aqsa-chalo-masjid-com

دوسرے صحابہ دیکھ کر مسکرا دیتے ۔ مسجد کی تعمیر کے بعد حضور اکرم  اس میں پانچ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں پڑھتے رہے ۔ اس کے بعد االلہ تعالی کے حکم سے قبلے کا رخ بیت االلہ کی طرف ہو گیا ۔ مسجد کا پہلے فرش کچا تھا، پھر اس پر کنکریاں بچھا دی گئیں ۔ یہ اس لیے بچھائی گئیں کہ ایک روز بارش ہوئی، فرش گیلا ہو گیا ۔ اب جو بھی آتا  اپنی جھولی میں کنکریاں بھر کر لاتا اور اپنی جگہ پر ان کو بچھا کر نماز پڑھتا ۔ تب نبی کریم نےحکم دیا کہ سارا فرش ہی کنکریوں کا بجھا دو ۔

پھر جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو نبی کریم  نے مسجد کو وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا ۔ مسجد کے ساتھ زمین کا ایک ٹکڑا حضرت عثمان غنی کا تھا، یہ ٹکڑا انہوں نے ایک یہودی سے خریدا تھا – جب حضرت عثمان کو معلوم ہوا کہ حضور  مسجد کو وسیع کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے عرض کیا

  اے اللہ کے رسول! آپ مجھ سے زمین کا یہ ٹکڑا جنت کے ایک مکان کے بدلے میں خرید لیں ۔  چنانچہ نبی کریم  نے زمین کا وہ ٹکڑا ان سے لے لیا ۔ مسجد نبوی کے بارے میں آپ  نے ارشاد فرمایا: “اگر میری یہ مسجد صنعا کے مقام تک بھی بن جائے (یعنی اتنی وسیع ہو جائے) تو بھی یہ میری مسجد ہی رہے گی، یعنی مسجد نبوی ہی رہے گی ۔