سیرت النبی،حضرت فاطمہ کی نبی کر یم سے محبت

اس وقت تک جنگ کی یہ خبریں مدینہ منورہ میں پہنچ چکی تھیں ، لہٰذا وہاں سے عورتیں میدان احد کی طرف چل پڑیں ، ان میں حضرت فاطمہ بھی تھیں ، انہوں نے آپ کو زخمی دیکھا تو بے اختیار آپ سے لپٹ گئیں ، پھر انہوں نے آپ کے زخموں کو دھویا، حضرت علی ؓ پانی ڈالنے لگے، لیکن زخموں سے خون اور زیادہ بہنے لگا، تب حضرت فاطمہ نے اپنی چادر کا ایک ٹکڑا پھاڑ کر جلایا، جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو وہ راکھ انہوں نے آپ کے زخموں میں بھر دی، اس طرح آپ کے زخموں سے خون بہنے کا سلسلہ رکا۔ حضور جب اس چٹان پر پہنچے تو دشمن کی ایک جماعت پہاڑ کے اوپر پہنچ گئی، اس جماعت میں خالد بن ولید بھی تھے، حضور اکرم نے دشمنوں کو دیکھ کر فرمایا:”اے اللہ! ہماری طاقت اور قوت صرف تیری ہی ذات ہے۔ “اس وقت حضرت عمر ؓ نے مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ ان لوگوں کا مقابلہ کیا اور انہیں پیچھے دھکیل کر پہاڑ سے نیچے اترنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد آپ نے ظہر کی نماز ادا کی، کمزوری کی وجہ سے یہ نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔ اس لڑائی میں حضرت طلحہ ؓ کے جسم پر تقریباً 70 زخم آئے، یہ نیزوں ، برچھوں اور تلواروں کے تھے، تلوار کے ایک وار سے ان کی انگلیاں بھی کٹ گئیں ، دوسرے ہاتھ میں ان کو ایک تیر آ کر لگا تھا، اس سے مسلسل خون بہنے لگا، یہاں تک کہ کمزوری کی وجہ سے ان پر بےہوشی طاری ہوگئی، اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اس سے انہیں ہوش آیا تو فوراً پوچھا:”رسول اللہ کا کیا حال ہے؟”حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جواب دیا:”خیریت سے ہیں ۔ “یہ سن کر حضرت طلحہ ؓ نے کہا:”اللہ کا شکر ہے، ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے۔ “حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کے منہ پر ضرب لگی۔ اس ضرب سے ان کے دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے علاوہ ان کے جسم پر بیس زخم تھے۔ ایک زخم ایک پیر پر بھی آیا تھا۔ اس سے وہ لنگڑے ہوگئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک ؓ کے جسم پر بھی بیس کے قریب زخم آئے تھے۔ غرض اکثر صحابہ کرام شدید زخمی ہوئے تھے۔ احد کی لڑائی شروع ہونے سے پہلے ایک شخص قزمان نامی بھی مسلمانوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوا تھا۔ اسے دیکھتے ہی حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔ وہ احد کی لڑائی میں بہت بہادری سے لڑا، لڑائی شروع ہونے پر سب سے پہلا تیر بھی اسی نے چلایا تھا، لڑتے لڑتے وہ مشرکوں کے اونٹ سوار دستے پر ٹوٹ پڑا اور آٹھ دس مشرکوں کو آن کی آن میں قتل کرڈالا۔ بعض صحابہ نے اس کی بہادری کا تذکرہ آپ سے کیا اس تذکرے سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ نے تو اسے جہنمی فرمایا ہے اور وہ اس قدر دلیری سے لڑ رہا ہے اس پر آپ نے پھر ارشاد فرمایا: “یہ شخص جہنمی ہے۔ “صحابہ کرام اس پر بہت حیران ہوئے۔ جب قزمان لڑتے لڑتے بہت زخمی ہوگیا تو اسے اٹھا کر بنی ظفر کے محلے میں پہنچایا گیا۔ یہاں لوگ اس کی تعریف کرنے لگے اس پر وہ بولا:”مجھے کیسی خوش خبری سنارہے ہو، خدا کی قسم! میں تو صرف اپنی قوم کی عزت اور فخر کے لیے لڑا ہوں ۔ اگر قوم کا یہ معاملہ نہ ہوتا تو میں ہرگز نہ لڑتا۔ “اس کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ بلند کرنے کے لیے نہیں لڑا تھا پھر زخموں کی تکلیف ناقابل برداشت ہوگئی۔ اس نے اپنی تلوار نکالی۔ اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر سارا بوجھ اس پر ڈال دیا۔ اس طرح تلوار اس کے سینے کے آر پار ہوگئی اس طرح وہ حرام موت مرا۔ اسے اس طرح مرتے دیکھ کر ایک شخص دوڑ کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:”میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ ” آپ نے دریافت فرمایا:”کیا ہوا؟”جواب میں اس نے کہا:” آپ نے جس شخص کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ جہنمی ہے اس نے خودکشی کرلی ہے۔ “اس طرح قزمان کے بارے میں آپ کی پیشین گوئی درست ثابت ہوئی، اس کے بالکل الٹ ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ بنی عبد الاشہل کا ایک شخص اصیرم اپنی قوم کو اسلام لانے سے روکتا تھا جس روز نبی کریم غزوہ احد کے لیے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے، یہ شخص مدینہ آیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں ؟ بنی عبد الاشہل نبی کریم کے ساتھ غزوہ احد کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔ جب اسے یہ بات معلوم ہوئی تو اچانک اس نے اسلام کے لیے رغبت محسوس کی، اس نے زرہ پہنی، اپنے ہتھیار ساتھ لیے اور میدان جنگ میں پہنچ گیا، پھر مسلمانوں کی ایک صف میں شامل ہوکر کافروں سے جنگ کرنے لگا۔ یہاں تک کہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا۔ جنگ کے بعد بنی عبد الاشہل کے لوگ اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے کہ اصیرم پر نظر پڑی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا اسے میدان جنگ میں زخموں سے چور دیکھ کر اس کے قبیلے کے لوگوں کو بہت حیرت ہوئی۔ انہوں نے پوچھا: “تم یہاں کیسے آگئے قومی جذبہ لے آیا یا اسلام سے رغبت ہوگئی ہے؟”اصیرم نے جواب دیا:”میں اسلام سے رغبت کی بنیاد پر شریک ہوا ہوں ۔ پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا پھر میدان میں آکر جنگ کی یہاں تک کہ اس حالت میں پہنچ گیا۔ “حضرت ابو ہریرہ ؓ ان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ مجھے ایسے شخص کا نام بتاؤ جس نے کبھی نماز نہیں پڑھی مگر وہ جنت میں چلا گیا۔ ان کا اشارہ حضرت اصیرم ؓ کی طرف ہوتا تھا۔ اس لڑائی میں حضرت حنظلہ ؓ شہید ہوئے۔ احد کی لڑائی سے ایک دن پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ دوسری صبح ہی غزوہ احد کا اعلان ہوگیا یہ غسل کے بغیر لشکر میں شامل ہوگئے اور اسی حالت میں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ نبی اکرم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:”تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں ۔ “اسی بنیاد پر حضرت حنظلہ ؓ کو “غسیل الملائکہ” کہا گیا، یعنی وہ شخص جنہیں فرشتوں نے غسل دیا۔

Leave a Reply