دشمن کی تکا لیف کی کہا نی
انکا ر رسا لت کے اسبا ب جا ن لینے کے بعدیہ جا ننا بھی اتنا ہی ضروری ہے کہ مشر کین مکہ نے عداوت و جہا لت میں نبی آکر الزما ن ﷺ اور ان کے پیرو کا ر صحا بہ کرام کے ساتھ کیا سلو ک کیا ؟اور اس پر انہو ں نے کس قسم کے جو ابی رد عمل کا ظہا ر کیا تا کہ سین پر چلنے والے افراد جا ن لیں کہ تبلیغ دین کے فر یضہ کو سر انجا م دینے پر آج بھی کفار اور جا ہلی معا شرہ کس قسم کے اوچھے ہتھکنڈے اختیا ر کر سکتا ہے اور داعی کا اس پر کیا رد عمل ہو نا چا ہیے ۔
مشرکین مکہ نے تو حید پر ستوں کو 5 مختلف اندا ز سے عمل صا لح اور تبلیغ دین سے روکنے کی کو شش کی ۔
مختلف قسم کی آفرز:
انہوں نے نبی کر یمﷺ کو مختلف قسم کی آفر زکیں کہ اگرنبیﷺ رقمچا ہتے ہیں تو انہیں مل جا ئے ۔
جس طرح عام انسا ن دینا میں شہر ت اور ما ل و جا ہ کے لئے مختلف دعوے کر تے ہیں تو شا یدان کاخیا ل ہو کہ نبی کر یم ﷺ بھی عامانسانو ں کی طرح دنیا میں شہر ت ما ل وغیرہ کے متلا شی تھے ۔حا لنکہ انبیا اکرا م ایسے دنیا دار نہیں ہو تے وہ تو بے لو ث ہو کر انسا نو ں کو رب کا پیغا م پہنچا تے ہیں ۔
جیساکہ حضر ت سیلما ن علیہ اسلا نے جب ملکہ سبا کی رف پیغا م بھیجا کہ وہ اللہ کے نبی ہیں اور اس ملکہ کوتو حید کا پیغام بھیجا اوراس کو نصیحت کی کہ سورج کی عبا دت چھو ڑ کر اللہ پر ایما ن لے آ ئے ۔اس پر ملکہ سبا نے سیلما ن علیہ اسلا م کو آزما نے کے لئے ان کی طرف قیمتی تحفے بھیجے تھے کہاگر ان تحآ ئف کو سیلما ن نے قبو ل کر لیاتو یہ آپ علیہ اسلا م کی دنیادار ہو نے کیعلامت ہوگئی لیکن اللہ پاک کےحکم سے سیلما ن نےوہ تحا ئف رد کر دیے کیو نکہ ان تحا ئف کے قبو ل کرنے کا مطلب کہ تو حید پر سمجھو تا کر لیں جبکہ انبیا ء کرام عیلہ اسلا م تو آئے ہی لو گو ں کو تو حید کی طرف بلا نے کے لئے تھے ۔ تو دینا کہ چند ٹکلے کے فا ئدے کے لئے وہ تو حید کی دعوت دینا کیسے چھو ڑ دیتے ۔ یہی حا ل حضرت محمد ﷺ کا تھا کہ کو ئی بھی آفر آپ ﷺ کو تو حید کے پیغا م پہنچا نے سے نہ رو ک سکی ۔ ایک مسلما ن کو ایسا ہی ہو نا ا چا ہیے کہ تو حید کے مقا بل ہر دنیا وی فا ئدہ چھو ڑ دینا چا ہیے ۔
قر آن کی مٹھا س کم کرنے کے حر بے :
نبی پا ک ﷺ جب قرآن کی تلا وت شرو ع کر تے تو قرآن اپنی حلا وت وتا ثیر کے سا تھ ساتھ نبی پا ک ﷺ کی پیا ری آواز کے اثرا ت بھی ہو تے ۔جو سنتا وہ سنتا ہی چلا جاتا ۔ اس رح کئی لو گ مسما ن ہو گئے ۔
شور شرابہ :
جب قرآن پڑ ھا جا تا تو شور کر نے لگتے تا کہ کسی کو قرآن کی صحیح طرح سے آواز سنا ئی نہ دے ۔
میو ذک اور گا نے :
گا نے مو سیقی لگا تے ۔ یہ با ت ملکل درست ہے کہ جہا ن مو سیقی ہو گی وہا ں قرآن کے اثرا ت کم ہو جا تے ہیں ۔ جو کا ن گا نے مو سیقی سننے کے عادی ہو جا تے ہیں ان کے دل قر آن کی مٹھا س سے نا آشنا ہو جا تے ہیں ۔
عر ب میں ایک آدمی تھا جس کا نا م نضر بن حا رث تھا ۔ وہ کسی علا قے میں ایپو ٹ ایکسپو ٹ کر تا تھا ۔ وہ اں اس نے دیکھا کہ لو گ دو قسم کے افرا د کو بہت تو جہ سے سنتے ہیں ایک مو سیقی و مغنیا کو اور دوسرا قصہ گو ئی ۔ اس نے وہ ں سے آلا ت مو سیقی اور چند قصے کہا نیا ں سنا نے والے افر اد کو لیا اور مکہ آگیا ۔ پھر جہا ں کہیں آپ ﷺ قرآن مجیدکی تلا وت کر تے مشر کین مکہ وہا ں مو سیقی شروع کر دیتے۔ مو سیقی اسلام یں حرام ہے۔آلا ت وسیقی کی حلت کا اسلا م میں کو ئی تصو ر نہیں ڈھو ل یا ڈھو لکی کو عر ب میں کو بہ کہا جا تا ہے ۔ حدیث میں اس کی واضح الفا ظ کے ساتھ اسے حرام قرار دیا گیا ہے ۔
شرا ب ، جو ا ، اور ڈھول حرام قرار دے دی گئی ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ سفیا ن کہتے ہیں میں نے علی بن بذیمہ سے کو بہ کے با رے میں پو چھا تو انہو ں نے کہا وہ ڈھو ل ہے ۔ بلکہ ہر قسم کے میو زک زنسڑو منٹ کو حر ام کہا گیا ہے ۔ نبی کر یم ﷺ نے فر ما یا کہ میری امت میں ایسے بر ے لو گ پیدا ہو جا ئیں گے جو زنا کا ری ، ریشم کا پہننا ، شرا ب پینا اور گا نے بجا نے کو حلا ل بنا لیں گے ۔ اس حدیث سے بلکل واضح ہو جا تا ہے کہ قیا مت کے قریب لو گ ان حرام چیزوں کو حلا ل کہنا شرو ع ہو جا ئیں گے ۔ یعنی نبی کر یم ﷺ کے زما نے میں اسے حرام ہی کہا گیا ہے ۔آج کلبھی کئی ایک نا م نہا د سکا لر کہتے نظر آتے ہیں کہ دور نبی ﷺ میں جس مو سیقی کوحرا م قرار دیا گیا تھا وہ اور تھی ۔آج کلتو مو سیقی روح کی غذا ہے ۔ بلکہ بعا ض تو یہا ں تک کہتے پا ئے جا تے ہیں کہ ( نعو ذبا للہ باذلک) حضرت داد علیہ اسلا م جو نہایت خوبصور ت آواز میں زبو ر پڑھا کر تے تھےوہ بھی مو سیقی ہی ہےان سےسوال کرےکہ موسیقی اگرروح کی غذا ہے تو جب انسا ن کی روح نکل رہی ہو تی ہے اس وقت اس کے قر یب گا نے کیو ں نہیں لگا تے ؟ کلمہ کیو ں یا د آتا ہے ؟ اسی لئے کہ مو سیقی رو ح کی غذا نہیں سزا ہے ۔ قرآن مجید رو ح کی اصل غذا ہے ۔