اس مو قعے پر وحی میں دیر اسی بنا کر ہو ئی تھی کہ آپ ﷺ نے انشا اللہ نہیں کہا تھا جب جبر ائیل سو رکہف کے کر ائے تو آپ ﷺ نے ان سے پو چھا تھا جبر ائیل تم اتنی مدت میرے پا س آنے سے روکے رہے اس سے تشویش پیدا ہو نے لگی تھے
جو اب میں حضرت جبر ائیل نے عر ض کیا ہم آپ ﷺ کے رب کے حکم کے بغیر نہ تو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتے ہیں نہ ایک زما نے سے دو سرے زما نے میں جا سکتے ہیں ہم تو صرف زب کے حکم پر عمل کر تے ہیں اور یہ جو کفا ر کہہ رہے ہیں کہ آپ ﷺ نے رب نے آپ ﷺ کو چھو ڑ دیا ہے تو آ پ ﷺ کے رب نے آپ ﷺ کو نہیں چھو ڑا بلکہ یہ سب اس کی حکمت کے مطابق ہو ا ہے
سورہ کہف کا نزول
پھر جبرائیل نے آپ ﷺ اصحا ب کہف کے با رے میں بتا یا ذو القرنین کے بارے میں بتا یا اور پھر روح کے با رے میں وضا حت کی اصحا ب کہف کی تفصیل ےتفسیر ابن کثیر کے مطا بق یو ں ہے
وہ چند نو جو ان 5تھے دین حق کی طر ف ما ئل ہو گئے تھے اور راہ ہد ایت پر آگئے تھے یہ نو جو ان پر ہیز گا ر تھے اہنے رب کو معبو د ما نتے تھے یعنی تو حید کے قا ئل تھے ایما ن میں روز بروز بڑھ رہے تھے اور یہ لو گ عیسی کے دین پر تھے لیکن بعض روایا ت سے معلو م ہو تا ہے کہ یہ واقعہ عیسی سے پہلے کا ہے اس لئے یہ سوال یہو دیو ں نے پو چھے تھے
اس لئے یہ سوال یہو دیو ں نے پو چھے تھے اور اس کا مطلب یہ کہ یہو دیو ں ی کتا ب میں یہ واقعہ مو جو د تھااس سے یہ ہی ثا بت ہو تا ہے کہ یہ واقعہ عیسی سے پہلے کا ہے
قوم نے انکی مخا لفت کی انہو ں نے صبر کیا اس وقت کے با دشاہ کا نا م دقیا نو س تھا وہ مش ک تھا اس نے سب کو شرک پر لگا رکھا تھا تھابھی بہت ظا لم بت پر ستی کر واتا تھا وہا ں پر سا لا نہ میلہ لگتا تھا یہ جو ان اپنے ما ں با پ کے ساتھ میلے میں گئے وہا ں پر انہوں نے بت پر ستی ہو تے دیکھی یہ وہا ں سے بیزار ہو کر نکل ائے اور سب ایک در خت کے نیچے جمع ہو گئے اس سے پہلے یہ لو گ الگ الگ تھے ایک ددسرے کو جا نتے نہیں تھے آپس میں بات چیت ہو ئی تو معلو م ہو ا یہ سب بت پر ستی سے بیزار ہو کر میلے میں چلے آئیں ہیں اب یہ آپس میں گھل مل گئے اللہ کی عبا دت کے لئے انہو ں نے ایک جگہ مقرر کر لی آخر مشرک کو ان کے با رے میں پتہ چل گیا وہ ان کو پکڑ کر با دشا ہ کے پا س لے گئے با سشاہ نے ان سے سوا لا ت کئے تو انہو ں نے نہا یت دلیری سے شرک سے انکا ر کیا با دشاہ اور دربا ریو ں کو بھی توحید کی دعوت دی انہو ں نے صا ف کہہ دیا ہما را رب وہ ہی ہے جو آسما ن اور زمین کا ما لک ہے یہ نا ممکن ہے کہ ہم اس کے علا وہ کسی کی عبا دت کر یں
ان کی صا ف گو ئی پر با دشاہ بگڑا اس نے انہیں ڈرایا دھمکا یا اور کہا کہ اگر یہ با ز نہ آئے تو انہیں سزا دوں گا با دشاہ کا حکم سن کر ان میں کو ئی کمزوری محسوس نہ ہو ئی وہ اپنے دین پر قا ئم رہے لیکن ایک با ت انہو ں نے محسو س کر لی کہ وہ ادھر رہ کر دین داردی پر قائم نہیں رہ سکیں گے اس لئے انہو ں نے سب کچھ چھو ڑ کر ادھر سے نکلنے کا ارادہ کیا جب وہ لوگ اپنا دین بطا نے کے لئے قر با نی دینے پر تیا ر ہو گئے تو اللہ پا ک نے ان کی مدد فرما ئی اور ان سے کہا :
کہ جا و تم کسی غا ر میں پنا ہ حا صل کر وتم پر تمھا رے رب کی رحمت ہو گی اور وہ تمھا رے کا م میں رحمت اور آسا نی مہیا کر دے گا
پس یہ لو گ مو قع پا کر وہا ں سے بھا گ نکلے اور ایک پہا ڑ کی غا رمیں چھپ گئے قوم نے انہیں ہر طر ف تلا ش کیا لیکن وہ نہ ملےاللہ نے انہیں ان کے دیکھنے سے عا جز کر دیا بلکل اسی قسم کا واقعہ رسول اکرم ﷺ کے ساتھ پیش آیا تھا جب آپ ﷺ نے ابو بکر صدیق کے ساتھ غا ز ثو ر میں پنا ہ لی تھے لیکن مشرک غا ر کےمنہ تک آنے کے با وجو د آپ ﷺ تک نہ پہنچ سکے
اس واقعے میں چند روایا ت میں تفصیل اس طر ح ہے کہ با دشاہ ہ آدمیو ں نے ان کا تعا قب کیا اور غآ ز تک پہنچ گئے تھے لیکن غا رمیں وہ لو گ ان کو نظر نہیں آئےقر آن کریم کا اعلا ن ہے کہ اس غا ر میں صبح و شام دھو پ آتی جا تی ہے یہ غا ر کسی شہر کے کس پہا ڑ میں ہے یہ یقینی طور پر کسی کو معلو م نہیں پھر اللہ پاک نے ان پر نیند طا ری کر دی اللہ پا ک ان کی کر وٹیں بد لو اتے رہتے ان کا کتا بھی غا ر میں ان کے ساتھ تھا اللہ پا ک نے جس طر ح اپنی قد رت قا ملہ سے انہیں سلا دیا تھا اسی طر ح انہیں جگا دیا وہ تین سو نو سال تک سو تے رہے اب تین سو نو سال بعد جا گے تو بلکل ایسے تھے جیسے ابھی کل ہی سو ئے ہو ں