You are currently viewing سیرت النبی ،کفا ر کے مقا بلے میں مسلما نو ں کی فتح

سیرت النبی ،کفا ر کے مقا بلے میں مسلما نو ں کی فتح

تمام مشرکوں کو گڑھے میں ڈال دیا گیا تو حضور نبی کریم اس گڑھے کے ایک کنارے پر آکھڑے ہوئے وہ وقت رات کا تھا۔ٖبخاری اور مسلم کی روایت میں ہے کہ جب نبی اکرم کی غزوہ میں فتح حاصل ہوتی تو آپ اسی مقام پر تین رات قیام فرمایا کرتے تھے۔

تیسرے دن آپ نے لشکر کو تیاری کا حکم دیا۔وہاں سے کوچ کرتے وقت آپ صحابہ کرام کے ساتھ اس گڑے کے کنارے کھڑے ہوکر ان لاشوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تم نے دیکھ لیا کہ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ کتنا سچا تھا،میں نے تو اس وعدے کو سچ پایا جو الله تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا تھا” آپ نے لوگوں کے نام بھی لیے مثلاﹰ فرمایا: “اے عتبہ بن ربیعہ،اے شیبہ بن ربیعہ،اے امیہ بن خلف اور اے ابوجہل بن ہشام تم لوگ نبی کا خاندان ہوتے ہوئے،بہت برے ثابت ہوئے،تم مجھے جھٹلاتے تھے جبکہ لوگ میری تصدیق کررہے تھے۔تم نے مجھے وطن سے نکالا،جب کہ دوسروں نے مجھے پناه دی۔تم نے میرے مقابلے میں جنگ کی جب کہ غیروں نے میری مدد کی۔” آپ کے یہ الفاظ سن کر حضرت عمر نے عرض کیا: “اے الله کے رسول!آپ ان مردوں سے باتیں کررہے ہیں جو بے روح لاشیں ہیں ۔” اس کے جواب میں آپ نےارشاد فرمایا: “جو کچھ میں کہہ رہا ہوں ،اس کو تم لوگ اتنا نہیں سن رہے ہیں مگر یہ لوگ اب جواب نہیں دے سکتے۔” حضور نے فتح کی خبر مدینہ منورہ بھیج دی

مدینہ منوره میں فتح کی خبر حضرت زید بن حارثہ لائے تھے۔انہوں نے یہ خوش خبری بلند آواز میں یوں سنائی: “اے گروہ انصار! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ کی سلامتی اور مشرکوں کے قتل اور گرفتاری کی۔قریشی سرداروں میں سے فلاں فلاں قتل اور فلاں فلاں گرفتار ہوگئے ہیں ۔” ان کے منہ سے یہ خوش خبری سن کر الله کا دشمن کعب بن اشرف یہودی طیش میں آگیا اور انہیں جھٹلانے لگا، ساتھ ہی اس نے کہا: “اگر محمد نے ان بڑےبڑے سورماﺅں کو مار ڈالا ہے تو زمین کی پشت پر رہنے سے زمین کےاندر رہنا بہتر ہے۔”( یعنی زندگی سے موت بہتر ہے)۔

فتح کی یہ خبر وہاں اس وقت پہنچی جب مدینہ منورہ میں حضور کی صاحبزادی وفات پاچکی تھیں اور ان کے شوہر حضرت عثمان اور وہاں موجود صحابہ کرام ان کو دفن کر کے قبر کی مٹی برابر کررہے تھے۔ آنحضرت کو جب حضرت رقیہ کی وفات کی اطلاع دی گئی تو ارشاد فرمایا: ” الحمد اللّٰه!اللّٰه تعالیٰ کا شکر ہے۔شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔

فتح کی خبر سن کر ایک منافق بولا: “اصل بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھی شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے ہیں ،اور اب وہ کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکیں گے،محمد بیٹھ کر آئے ہیں ،اگر محمد زندہ ہوتے تو اپنی اونٹنی پر خود سوار ہوتے مگر یہ زید ایسے بدحواس ہورہے ہیں کہ انہیں خود بھی پتا نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ ” اس پر حضرت اسامہ نے اس سے کہا: “اوہ الله کے دشمن!محمد کو آلینے دے،پھر تجھے معلوم ہوجائے گا کسے فتح ہوئی اور کسے شکست ہوئی ہے؟” پھر نبی اکرم مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں صفراء کی گھاٹی میں پہنچے تو اس جگہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔اس مال میں ایک سو پچاس اونٹ اور دس گھوڑے تھے،اس کے علاوہ ہر قسم کا سامان، ہتھیار، کپڑے اور بے شمار کھالیں ،اون وغیرہ بھی اس مال غنیمت میں شامل تھا۔یہ چیزیں مشرک تجارت کے لیے ساتھ لے آئے تھے۔ اس موقع پر آپ نے اعلان فرمایا: “جس شخص نے کسی مشرک کا قتل کیا،اس مشرک کا سامان اسی کو ملے گا اور جس نے کسی مشرک کو گرفتار کیا،وہ اسی کا قیدی ہوگا۔” آپ نے اس مال میں سے ان لوگوں کے بھی حصے نکالے،جو غزوہ بدر میں حاضر نہیں ہوسکے تھے۔

یہ وہ لوگ تھے جنہیں خود آنحضرت نے کسی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے سے روک دیا تھا کیونکہ حضرت رقیہ بہت بیمار تھیں اور خود حضرت عثمان کو چیچک نکلی ہوئی تھی، اس لیے آپ نے حضرت عثمان کو اصحاب بدر میں شمار فرمایا۔اسی طرح حضرت ابولبابہ تھے،انہیں خود آپ نے مدینہ والوں کے پاس بطور محافظ چھوڑا تھا۔اور حضرت عاصم بن عدی کو آپ نے قبا اور عالیہ والوں کے پاس چھوڑا تھا۔ اسی طرح حضور نے ان لوگوں کا بھی حصہ نکالا جنہیں جاسوسی کی غرض سے بھیجا گیا تھا تاکہ وہ دشمن کی خبر لائیں ۔یہ لوگ اس وقت واپس لوٹے تھے جب جنگ ختم ہوچکی تھی۔ اسی مقام پر آپ نے قریش کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث کو قتل کرنے کا حکم فرمایا۔یہ شخص قرآن کریم اور آنحضرت کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال کرتا تھا۔اسی طرح کچھ آگے چل کر آپ نے عقبہ بن ابی معیط کے قتل کا حکم فرمایا۔یہ بھی بہت فتنہ پرور تھا۔اس نے ایک بار آپ کے چہرہ انور پر تھوکنے کی کوشش بھی کی تھی اور ایک بار حضور کو نماز میں سجدے کی حالت میں دیکھ کر اس نے آپ کی گردن پر اونٹ کی اوجھ لا کر رکھ دی تھی۔حضور نے اس سے ارشاد فرمایا: “مکہ سے باہر میں جب بھی تجھ سے ملوں گا تو اس حالت میں ملوں گا کہ تلوار سے تیرا سر قلم کروں گا۔” اس کے بعد حضور آگے روانہ ہوئے اور پھر مدینہ منوره کے قریب پہنچ گئے۔یہاں لوگ مدینہ منوره سے باہر نکل آئے تھے تاکہ حضور اور مسلمانوں کا استقبال کرسکیں اور فتح کی مبارک باد دے سکیں ۔

پھر آپ مدینہ منوره میں داخل ہوئے تو شہر کی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کیا۔وہ اس وقت یہ گیت گارہی تھیں :”ہمارے سامنے چودھویں کا چاند طلوع ہوا ہے،اس نعمت کے بدلے میں ہم پر ہمیشہ اللّٰه تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔” دوسری طرف مکہ معظمہ میں قریش کی شکست کی خبر پہنچی، خبر لانے والے نے پکار کر کہا: “لوگو!عتبہ اور شیبہ قتل ہوگئے، ابوجہل اور امیہ بھی قتل ہوگئے اور قریش کے سرداروں میں سے فلاں فلاں بھی قتل ہوگئے فلاں فلاں گرفتار کرلیے گئے۔” یہ خبر وحشت ناک تھی۔خبر سن کر ابولہب گھسٹا ہوا باہر آیا۔اسی وقت ابوسفیان بن حارث وہاں پہنچے،یہ حضور کے چچازاد بھائی تھے۔اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔یہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ابولہب نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا:”میرے نزدیک آؤ اور سناؤ کیا خبر ہے؟”

Leave a Reply