مکہ کے کا فر وں کی چلا کی :
مشر کین مکہ اس با ت پر بھی را ضی نہ ہو ئے کہ تو حید پر ست ان کے علا قے سے چلے گئیں ہیں ۔ وہ حبشہ تک ان کے پیچھے گئے اور وہاں کے عیسا ئی با دشا ہ سے کہا کہ ہما رے کچھ افر ا د آپ کے ملک میں بھا گ آئیں ہیں ۔ انہیں واپس کیا جا ئے ۔ انہو ں نے با دشا ہ کے در با ریو ں کو رشو ت دے کر اپنے سا تھ ملا لیا تھا ۔ دربا ری بھی ان کی حما یت کر نے لگے ۔ با دشا ہ جس کا نا م اصحمہ تھا اور اسے نجا ش کہا جا تا تھا ، نے مہا جر ین سے ہجر ت کا سبب پو چھا تو حضر ت جعفر طیا ر ؑ نے کہا اے با دشا ہ ہم جہا لیت میں تھے ۔ بتو ں کو پو جتے ، تعلق تو ڑتے ہمسا ئیو ں سے بد سلو کی کر تے ، کمزورو پر ظلم کر تے تھے کہ اللہ پا ک نے ہم میں ایک نبی بھیجے جنہو ں نے ایک اللہ کی طرف بلا یا اور ان با تو ں سے روکا ۔ ہ نے ان کی با ت ما نی اور ان لو گو ں نے ان کی با ت نہ ما نی ۔ ان کے ظلم کی وجہ سے آپ کے علا قے میں آگئے
مشر کین مکہ بڑے پر یشا ن ہو ئے اورکہنےلگے:
اےبا دشاہ ان سےپو چھیں کہ عیسیٰ علیہ اسلا م کے با رے میں ان کا کیا نظریہ ہے ؟
بادشاہ چونکہ عیسا ئی تھااور اس وقت کےعیسا ئیوں کاعقیدہ تھا کہ نعوذ با اللہ من ذلک ء عیسیٰ اللہ کے بیٹے ہیں ۔ انہیں یہ غلطی اس لئے لگی کہ عیسیٰ علیہ اسلا م بن با پ کے پیدا ہو ئے تھے ۔
جبکہ اسلا م یہ کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ اسلا م اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔اللہ پا ک کا کو ئی بیٹانہیں ۔ بن با پ کے پیدا ہو نے سے اگر کو ئی اللہ کا بیٹا بن جا تا ہے تو آدپ علیہ اسلا م بن با پ ہی نہیں بن ما ں کے بھی پیدا ہو ئے تھےان کے بارے کیوں نہیں کہتےیہ اللہ کے بیٹے ہیں ؟در اصل یہ لو گ گمراہی کا شکا ر ہیں ۔ انہو ں نے ک بھی سو چاہی نہیں کہ اللہ پا ک وہ ہے جوکسی بھی چیز کا محتا ج نہیں ۔ جبکہ عیسیٰ علیہ اسلا م اور ان کی والدہ محترمہ مر یم عیلہ اسلام کھانا کھا تی تھیں ۔ کھا نا وہ کھا تے ہیں جسے بھو ک لگےیعنی بھو ک مٹا نے کے لئے جو کھا نا کھا ئے اسے کھا نے کی احتیا ج ہے ۔ جبکہ اللہ پا ک کھا نا نہیں کھا تا اور نہ ہی اسے کھا نے کی احتیا ج ہیے۔
یہ بڑا مشکل مر حلہ تھا کہ اگرعیسیٰ علیہ اسلا م کے با رے اسلا م کا نظریہ عیسا ئی با دشاہ کے سامنے رکھ دیں تو ہو سکتا ہے کہ غصہ میں وہ انہیں ملک سے با ہر نکا ل دے ۔
لیکن یہی تو مسلما ن کی شان ہے کہ وہ صر ف اللہ سے ڈرتاہےاور اسپربھروسہ کر تا ہے ۔
حضر ت جعفر طیا ر ؑ نے سورت مر یم کی تلا وت کر نا شروع کر دی جس میں عیسی ٰ علیہ اسلام کے بندے اور رسول ہو نے کا ذکر ہے اور اللہ کے بیٹےہو نے کی نفی ہے ۔
با دشاہ یہ سن کر رونے لگا اور کہا کہ واقعہ جو اس سورت مین عیسیٰ کے متعلق کہا گیا ہے ایسے ہی ہے ۔
اس پر مشرکین مکہ ما یو س ہو کر واپس مکہ لو ٹ گئے ۔
با ئیکا ٹ کی کہا نی
کفا ر کے بے انتہا ء مظا لم کے با وجو د جب لو گ اسلا م کو نہ چھو ڑ رہے تھے تو سب مشر کین نے مل کر آپ ﷺ اور آُ کے صحا بہ ؑ کا سو شل ( معا شرتی ) با ئیکا ٹ کر دیا ۔
یہ با ئیکاٹ3سال تک جا ری رہا۔
یہ ایک دردناک والم ناک قصہ ہے۔
انسا ن تنہا زند گی نہیں گزارسکتا۔ زندگی گزا رنے کےلئے اسے دوسرےکی ضرورت ہو تی ہےاورسب سے بڑ ی مشکل تب ہو تی ہے جب کسی کوکو ئی بلاناچھوڑدے۔ اس کے پاس رقم بھی موجود ہو لیکن کو ئی اسے کچھ بھی فر وخت کر نے سے نکا ر کر دے ۔
مشر کین نے ایک جگہ جع ہو کر یہی فیصلہ کیا کہ اب سے حضر ت محمدﷺاور آپکےساتھیوںکو کو ئی بھی نہ بلو ئےنہ تجا رت کر ے نہ تعلق رکھے۔
آخر کا ر نبو تکےساتویں سال 1 محرم سے اس بائیکا ٹ کی ابتدا کر دی گئی ۔ اسکاسب سے خوفنا ک پہلویہ تھاکہ جوافراداس بائیکا ٹ حصہ نہیں بنناچاہتےتھےانہیں بھی اس پرمجبورکیاگیا اوردھمکی دی گئی کہ اگر کسی نے آپﷺاورآپ کے صحابہ کابائیکاٹ نہیں کیا تو اس سے بھی ہر قسم کا تعلق ختم کر دیا جا ئے گا اور اس با ئیکا ٹ کی تحریر لکھ کر کعبہ پر آویزاں کر دی جا ئے گی ۔
یہ بڑ ی تکلیف کے ایا م تھے ۔ کھا نے کو کچھ نہ ہو تا ۔ کئی کئی دن بھو کے پیا سے گز ارنے پڑ تے ۔کبھی کبھی کو ئی ہمدرد رات کے اند ھیرے میں چھپ چھپا کر دے جا تا تو اسی کو غنیمت سمجھا جا تا ۔ اسی رح ن3 سال گز ارے ۔ با ئیکا ٹ کا شکا ر افراد کمزور سے کمزور تر ہو تے جا رہے تھے ۔
با ئیکا ٹ کے خا تمہ کا دلچسپ قصہ :
کچھ لو گ اس با ئیکا ٹ کے سخت خا لف تھے ۔ ان کا نظر یہ یہ تھا کہ نبی کر یم ﷺ کی با ت نہیں ما نی تو نہ ما نیں لیکن یہ کو ن سی عقل مندی ہے کہ سا رے عرب میں مکہ والو ں کی خآ وت مشہو ر ہو دور دور سے لو گ آ کر ان کے دسترخو ان سے کھا تے ہو ں اور ان کے اپنے ہی رشتے دار بھو کے سہیں ۔
آخر کا ر ایک سن ہشا م نا می ایک آدمی زہیر نا مہ شخص کے پا س گیا اور اسے غیرت دلا تے ہو ئے پو چھا کہ کیا تم پسند کر تے ہو کہ ہم پیٹ بھر کر سو ئیں اور ہما رے رشتہ دار بھو کے رہیں ؟
انمہو ں نے اسی طرح 3 افرا د کو اپنے سا تھ اور ملا یا ۔ اس طرح یہ کل 5 ہو گئے ۔
حرم میں جب سرداران مکہ بیٹھے ہو ئے تھے تو ان 5 میں سے زہیر نا مہ آدمی ان سرداروں سے کہنے لگا کہ ہم کھا نا کھا ئیں اور وہ بھو کے رہیں ۔ ہم اس با ئیکا ٹ کو نہیں ما نتے اسے پھاڑ دیا جا ئے ۔
ابو جہل کہنے لگا اسے پھا ڑا نہیں جا سکتا ۔
ان 5 میں سے دوسرا بو لا کہ جب یہ بائیکاٹ لکھاگیاتوہم اس وقت بھی را ضی نا تھے ۔پھر ان میں سے تیسرا پھرچوتھااورپھرپانچواں بھی ایسےہیکہنےلگا۔
کفارکوایسےمحسوس ہو ا کہ یہ بہت سا رے لو گ ہیں جواپنی مرضی سے بائیکاٹ کے خلاف بو ل رہے ہیں حلا نکہ یہ صر ف پا نچ ہی تھے ۔
اسی توتومیں میں کے دوران ابو طا لب آئےانہوں نے کہا کہ میر ے بھتیجے یعنی حضرت محمدﷺنےکہاہےکہ بائیکا ٹوالی لکھی ہوئی تحریر جوکعبہ پرلٹکائی گئی تھی تا کہ با ہرسےآنے والا ہرآدمی اس کو پڑ ھ کر اس پر عمل کرے وہ ختم ہو چکی ہے ۔
سب دیکھنے کے لئے گئے تو واقعی صحیفہ چاک ہو چکا تھا
اپنی بڑی نشا نی دیکھنے کے با وجود بھی یہ لو گ مسلما ن نہیں ہو ئے