سیرت النبی ،غزوات میں نبی کریم کا مقابلہ یہودیوں کے ساتھ

انھوں نے ایک مسلمان عورت سے بدتمیزی کی- ان کی بدتمیزی کو پاس سے گزرتے ہوئے ایک صحابی نے دیکھ لیا،انھوں نے اس یہودی کو قتل کردیا،یہ دیکھ کر محلے کے یہودیوں نے مل کر ان صحابی کو شہید کردیا- اس خبر کے پھیلنے پر وہاں اور مسلمان جمع ہوگئے- حضور نبی کریم ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو آپ نے یہودیوں کو جمع کر کے ان سے فرمایا۔ اے یہودیو۔تم اللہ تعالٰی کی طرف سے ایسی تباہی سے بچنے کی کوشش کرو جیسی بدر کے موقع پر قریش پر نازل ہوئی ہے،اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ،تم جانتے ہو کہ میں اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس حقیقت کو تم اپنی کتاب میں درج پاتے ہو۔ اس پر یہودیوں نے کہا۔ اے محمد۔آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم کی طرح ہیں ،اس دھوکے میں نہ رہیے گا،کیونکہ اب تک آپ کو ایسی قوموں سے سابقہ پڑا ہے جو جنگ اور اس کے طریقے نہیں جانتے۔لہذا آپ نے انہیں آسانی سے زیر کر لیا،لیکن اگر آپ نے ہم سے جنگ کی تو خدا کی قسم آپ کو پتا چل جائے گا کہ کیسے بہادروں سے پالا پڑا ہے۔ ان کے یہ الفاظ کہنے کی دراصل وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ جنگجو اور عسکری فنونِ کے بہت ماہر تھے۔پھر یہودیوں میں سب سے زیادہ دولت مند تھے،ہر قسم کا بہترین اسلحہ ان کے پاس تھا۔ان کے قلعے بھی بہت مضبوط تھے۔ان کے الفاظ پر اللہ تعالٰی کی طرف سے سورۃ آل عمران کی آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ۔اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ بہت جلد تم (مسلمانوں کے ہاتھوں ) شکست کھاؤ گے اور آخرت میں جہنم کی طرف جمع کر کے لے جائے جاؤ گے اور وہ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ اس دھمکی کے بعد بنی قینقاع قلعہ بند ہو گئے۔ آنحضرت ﷺ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ کا پرچم اس غزوہ میں سفید رنگ کا تھا اور حضرت حمزہ کے ہاتھ میں تھا۔ان کے قلعوں کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ ﷺ نے حضرت ابو لبابہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔آپ ﷺ نے یہودی بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔یہ محاصرہ بہت سخت تھا۔پندرہ دن تک جاری رہا۔آخر اللہ تعالٰی نے ان یہودیوں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب طاری کر دیا۔وہ اس محاصرے سے تنگ آ گئے،حالانکہ ان یہودیوں میں اس وقت تقریباً سات سو جنگجو تھے۔اب انہوں نے درخواست کی کہ ہم یہاں سے نکل کر جانے کے لیے تیار ہیں ،شرط یہ ہے کہ انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا جائے۔اس صورت میں وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ہماری عورتیں اور بچوں کو بھی جانے دیا جائے۔مال و دولت اور ہتھیار وغیرہ وہ یہیں چھوڑ جائیں گے۔حضور اکرم ﷺ نے ان کی یہ بات منظور فرما لی۔اور انہیں نکل جانے کا راستہ دے دیا۔ اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ بے تحاشا مال غنیمت آیا۔ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکل جانے کے لیے تین دن کی مہلت دی گئی۔یہ لوگ وہاں سے نکل کر ملک شام کی ایک بستی میں جا بسے۔ایک روایت کے مطابق ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ حضور نبی کریم ﷺ کی بد دعا کا اثر تھا۔ غزوہ قینقاع کے بعد چند چھوٹے چھوٹے غزوات اور ہوئے۔کچھ دنوں بعد حضور اکرم ﷺ نے حضرت زینب بنت خزیمہ سے اور پھر حضرت زینب بنت جحش سے نکاح فرمایا- حضرت زینب بنت جحش کا پہلا نکاح زید بن حارثہ سے ہوا تھا- یہ حضور اقدس ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے- ان دونوں میں نبھ نہ سکی،لہٰذا طلاق ہوگئی اور اس کے بعد آپ ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا- یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرمایا تھا اور اس بارے میں آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی تھی جب وحی نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا:”زینب کو جاکر خوشخبری سنادو،اللہ تعالٰی نے آسمان پر ان سے میرا نکاح کردیا ہے- “اس بارے میں اللہ تعالی نے سورہ احزاب میں آیت بھی نازل فرمائی تاکہ لوگ شک و شبہ نہ کریں کہ آپ ﷺ نے اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے نکاح کیا ہے- دراصل عرب کے جہالت زدہ معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح محرم سمجھا جاتا تھا اور اس کی طلاق شدہ بیوی سے شادی ناجائز سمجھی جاتی تھی،ساتھ ساتھ اسے وراثت میں بھی حصہ ملتا تھا- اسلام نے اس فرسودہ رسم کو بالکل ختم کردیا اس کی ابتدا حضور ﷺ نے کی- آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو دعوت ولیمہ بھی کھلائی- اسی روز پردے کی آیت نازل ہوئی- 3ھ میں غزوہ احد پیش آیا- احد پہاڑ مدینہ منورہ سے دو میل کے فاصلے پر ہے- اس پہاڑ کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:یہ احد ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں – جب تم اس کے پاس سے گزرو تو اس کے درختوں کا پھل تبرک کے طور پر کھا لیا کرو،چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو- ” غزوہ احد کیوں ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ غزوہ بدر میں کافروں کو بدترین شکست ہوئی تھی- کافر جمع ہوکر اپنے سردار حضرت ابوسفیان کے پاس آئے اور ان سے کہا:”بدر کی لڑائی میں ہمارے بے شمار آدمی میں قتل ہوئے ہیں – ہم ان کے خون کا بدلہ لیں گے آپ تجارت سے جو مال کما کر لاتے ہیں ،اس مال کے نفع سے جنگ کی تیاری کی جائے- ” حضرت ابوسفیان نے ان کی بات منظور کرلی اور جنگ کی تیاریاں زورشور سے شروع ہوگئیں – کہا جاتا ہے کہ سامانِ تجارت سے جو نفع ہوا تھا،وہ پچاس ہزار دینار تھا- غزوہ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے ابوحمزہ شاعر کو فدیہ لیے بغیر رہا کردیا تھا،اور اس سے اقرار لیا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف شعر نہیں کہے گا اب جب جنگ کی تیاریاں شروع ہوئیں تو لوگوں نے اس سے کہا:”تم اپنے اشعار سے جوش پیدا کرو- ” پہلے تو ابوحمزہ نے انکار کیا،کیونکہ وہ حضور ﷺ کے سامنے وعدہ کر آیا تھا،لیکن پھر وعدہ خلافی پر اتر آیا اور اشعار پڑھنے لگا-

Leave a Reply