غزوہ احد کی کہا نی
مشر کین مکہ کے ذہن سے غزوہ بد ر کی ذلت ختم نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ لو گ ہر وقت بد لہ لینے کی با تیں کر تے رہتے ۔ آخر کا ر انہو ں نے فیصلہ کر لیا کہ مس ینہ والو ں سے بد لہ لے کر ہٹیں گے ۔ مشر کین کے جو بر ےبڑ ے سر دار ما رے گئے تھے ، ان کے رتہ داروں نے 3 ہزار بندا تیا ر کر لیا ۔ انہو ں نے اپنے ساتھ 3 ہزار اونٹ ، دوسو گھو ڑے اور سا ت سو ز رہیں لیں اور ابو سفیا ن کو بڑا سر دار بنا کر مکہ چل پڑے ۔
انکے نکلتےہی آپﷺ کے چچا عبا س نے ایک بندے کومدینہ بھیجا کہ ان سے پہلے پہنچ کر آپ ﷺ کو سا ری با ت بتا دو ۔ وہ بڑا تیز نکلا ۔ وہ 3 دن میں ہی مد ینہ پہنچ گیا اور کا فرو ں کی ساری پلا نگ بتا دی ۔
یہ خبر سن کر چار کا م کئے گے :
لو گو ں نے ہر وقت ہتھیا ر با ند ھنا شروع کر دیئے تا کہ اگر اچا نک حملہ ہو جا ئے تو انہیں ہتھیا ر لینے گھر وں کو نا جا نا پڑ ے ۔
مد ینہ پا ک میں دا خل ہو نے والے راستو ں پر پہرے دار مقرر کر دیئے ۔
مد ینہ کی طرف آنے والے راستو ں پر بھی لو گ چکر لگا تے تا کہ مشر لین کے داخل ہو نے سے پہلے ان کا پتا چل جا ئے ۔
سب سے اہم کا م یہ کیا کہ آپ ﷺ کی حفاظت کے لئے ہروقت باڈی گا رڈمو جو دہوتےتا کہ اچا نک کو ئی حملہ نہ کر سکے ۔
مکےکی ایک عورت کی بدتمیزی :
کہ سے مد ینہ آتے ہو ئے راستےمیں ایک جگہ آتی ہے جہا ں نبی پا ک ﷺ کی ولداہ دفن ہیں۔ جب وہا ں پہنچے تو ایک عورت کہنے لگی نعو ذ با للہ من ذالک ان کی قبر کا اکھا ڑ دیں ۔ سب نے سمجھا یا کہ اگر یہ کسی نے کا م کیا تو حلا ت بہت بگڑ جا ئیں گے ۔
نبی پا ک ﷺ کا خو اب :
آپ ﷺ نے صحا بہ اکرا م ؑ کو بلا یا ا ور بتا یاکہ میں نے ایک خوا ب دیکھا ہے جس میں کچھ گا ئیں ہیں جنہیں ذبح کر دیا گیا ، میری تلوا ر کچھ ٹو ٹی ہو ئی ہے اور ہا تھ ایک محفو ظ زرہ میں ہے ۔
پھر بتا یاکہ گا ئیں ذبح کر نے سے مرا یہ ہے کہ بعض صحا بہ اکر ام ؑ کو شہید کر دای جا ئے گا ۔ تلوا ر ٹو ٹنے سےمرا د یہ ہے کہ میرے خا ندا ن کا کا ئی قر یبی شہید ہو جا ئے گا اور ہا تھ زرہ میں ڈالنے کا مطلب ہے کہ مد ینہ میں رہ کر لڑ یں گے تو نقصان سے بچ جا ئیں گے ۔
بعض لو گو ں نے جب زورو شو ر سے مشورہ دیا کہ ہم با ہر جا کر لڑ یں گے تو آپ ﷺ نے ان کی با ت ما ن لی ۔
جب آپ ﷺ نے با ہر جا کر لڑ نے کے لئیے زرہ پہن لی تو پھر لو گ کہنے لگے چلو اندر ہی لڑ تے ہیں لیکن آپ ﷺ نے انکا ر کر دیا کیو نکہ جب بھی نبی ہتھیا ر پہن لیں تو فیصلہ کن گنگ کے بغیر نہیں اتا رتے ۔
مسلما نو ں کی روانگی :
ایک ہزا ر مسلما ن سوز رہو ں کے سا تھ چل پر ےبا زبچےبھیساتھساتھ چل رہے تھے ۔نبی پا ک ﷺ نے بچے واپس بھجوا دیئے ۔
بچو ں کا شوق جہا د :
ان بچو ں میں سے ایک بچہ بڑا اچھا تیز اندا ز تھا ، اسے ساتھ لے لیا تو دوسرا بچہ جو اس سے کمزور تھا کہنے لگا کہ میں اسے کشتی میں ہرا سکتا ہو ں ۔
آپ ﷺ نے ان دو نو ں کے در میا ن کشتی کر ؤائی تو کمزور ولا بچہ جیت گیا اس طرح وہ بھی ساتھ گیا ۔
با بے عبداللہ کی فراڈی :
ابھی نکلے ہی تھے کہ با با عبدا للہ کہنے لگا ہ نے نہیں لڑ نا ۔ آخر کا ر وہ 3 سو بند ے لے کر واپس چلا گیا ۔ اس طرح مسلما ن 7 سو رہ گئے ۔
لڑائی کی تیا ریا ں :
دوسری رف مکہ والے بھی مد ینہ پہنچ چکے تھے ۔آپ ﷺ نے جنگ کے لئیے ایسی جگی چنی جس میں تین طرف پہا ڑ ی تھی صر ف ایک رف گرا ؤ نڈ تھا ۔ اس طرح صر ف ایک طرف کو ہی جنگ کر نی پڑ ی تھی ۔
مکہ والوں کے سر پرایک چٹان تھی جسے رما ۃ کہاجاتاہے۔آپ ﷺ نے 50 بندو ں کوکھڑا کر دیا کہ تم یہی رہنا اور کسی بھی صور ت نییچے نہیں اترنا۔
سات شوا ل کو سب لو گ جنگ کےلئےپو ری طرح تیارتھے۔
نبی پاکﷺنے اپنی تلوار نکالی او ایک بند ے کو دے دی ۔ ان کا نا م ابو د جا نہ ؑ تھا ۔ انہو ں نے سر پر سر خ رنگ کا روما ل با ند ھ لیا ۔ سب کو معلو م تھا کہ جب یہ سر خررما ل با ند ھ لیں تو اگلے کی خیر نہیں ۔ پھر انہو ں نے کا فر وں کے سا منے اکڑ اکڑ کر چلنا شروع کر دیا ۔
مسلما ن کے لئے ایسے اکڑ کر شلنا حرا م ہے اور اسے تکبر کی چا ل کہا جا تا ہے ۔ اسلا م نے صر ف دشمنو ں کے سا منے اس طرح چلنے کی اجا زت دی ہے تا کہ کا فر وں پر رعب پڑ جا ئے ۔
جنگ شروع ہو نے سے پہلے ابو سفیا ن نے مسلما نو ں کی آپس میں لڑا ئی کرا نے کی بڑ ی کو شش کی پر نا کا م رہا ۔