You are currently viewing سیرت النبی،لوہے کی دیوار
Sirat al-Nabi The Iron Wall

سیرت النبی،لوہے کی دیوار

ان کے بد ن کھا ل با ل ہر چیز بلکل صحیح سلا مت تھے یعنی جیسے سو تے وقت تھے بلکل ویسے ہی تھے کسی قسم کی کو ئی تبدیلی واقع نہیں ہو ئی تھی وہ آپس میں کہنے لگے کیو ں بھی بھلا ہم کتنی دیر تک سو تے رہے ہیں

ایک نے جو اب دیا ایک دن یااس سے بھی کم

کہف کی کہا نی

یہ با ت اس نے اس لئے کہی تھی کہ وہ صبح کے وقت سو ئے تھےاور جب جا گے تو شام کا وقت تھا اس لئے انہو ں نے خیال کیا کہ ایک دن یا اس سے کم سو ئے ہیں پھر ایک نے یہ کہہ کر با ت ختم کر دی کہ اس کا درست علم اللہ کو ہے

اب انہیں شد ید بھوک پیا س کا احساس ہو ا انہو ں نے سو چا با زار سے کچھ کھ نا منگو انا چا ہیئے پیسے ان کے پاس تھے مگر ان میں سے کچھ وہ لہ کے راستے میں خرچ کر چکے تھے کچھ ان کے پا س با قی تھے ان میں سے ایک نے کہا

ہم میں سے کو ئی پیسے لے کر با زار چلا جا ئے اور کھا نے کہ کو ئی عمدہ اور پا کیزہ چیز لے آئے جا تے ہو ئے اور آتے ہو ئے اس با ت کا خیا ل رکھے کہ لو گون کی نظر اس پر نہ پڑجا ئے سو دہ خریدتے وقت بھی ہو شیا ری سے کا م لے کسی کی نظر میں نہ آئے اگر انہیں ہما رے با رے میں معلوم ہو گیا تو ہما رے خیر نہیں دقیا نو س کے آدمی ابھی تک ہمیں تلا ش کر تے پھر رہے ہوں گے

چنا نچہ ان میں سے ایک غا ر میں سے نکلا اسے سا را نقشہ ہی بد لا نظر آیا اب اسے کیا معلو م تھا کہ وہ تین سو نو سال تک سو تے رہے ہیں اس نے دیکھا کو ئی بھی چیز اپنے حا ل پر نہیں تھی شہر میں کو ئی بھی شخص اسے جا نا پہچا نا نہ لگا

یہ حیران تھا اور پریشا ن تھا اور ڈرتے ڈرتے آگے بڑھ رہا تھا کل شا م تو ہم اس شہر کو چھو ڑ کر گئے تھے پھر یہ اچا نک کیا ہو گیا ہےجب زیا دہ پریشا ن ہو ا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اسے سودہ لے کر جلد از جلد اپنے سا تھیو ں کے پا س پہنچ جا نا چا ہیئے آخر وہ ایک دکا ن پر پہنچا دکا ن دار کوپیسے دیئے اور کھا نے پینے کا سا ما ن طلب کیا دکا ن دار اس سکے کو دیکھ کر حیران زدہ رہ گیا اس نے وہ سکہ ساتھ والے دکا ن دار کو دیکھا اور وہ بولا

اصحا ب کہف کی با دشاہ سےملا قات

بھا ئی ذرا دیکھ یہ کس زما نے کا سکہ ہے اس نے دوسرے کو دیا اس طر ح سکہ کئی ہا تھو ں میں گھوما کئی آدمی وہا ں جمع ہو گئے آخر انہو ں نے پو چھا تم یہ سکہ کہا ں سے لا ئے ہو تم کس ملک کے رہنے والے ہو جو اب میں اس نے کہا کہ میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہو ں کل شام ہی تو میں یہا ں سے گیا ہو ں یہا ں کا با دشاہ دقیا نو س ہے وہ اس با ت پر ہنس پڑے اور بو لے یہ توکو ئی پا گل ہے اسے پکڑ کر با دشاہ کے پا س لے چلو

آخر اسے با دشاہ کے پا س کے جا یا گیا وہا ں اس سے سوالا ت ہو ئے اس نے تما م حا ل کہا سنا یا با دشاہ اور تما م لو گ اس کی کہا نی سن کر حیر ت زدہ رہ گئے اس نے پھر کہا اچھا ٹھیک ہے تم اپنے ساتھیو ں کے پا س لے چلو اور ہمیں وہ غا ر بھی دیکھا و

چنا نچہ سب لو گ اس کے ساتھ غا ر کی طر ف روانہ ہو ئے ان نو جو انو ں سے ملے اور انہیں بتا یا کہ دقیا نو س کی باد شاہی ختم ہو ئے تین سو صدیا ں بیت چکی ہیں اب یہا ں اللہ کے نیک بندوں کی حکو مت ہے بہر حا ل انہوں نے اپنی با قی زندگی غا ر میں گزاری اور وہی وفا ت پا ئی

مسجد کی تعمیر

بعد میں لو گو ں نے ان کے اعزاز کے طو رپر پہا ڑ ہر ایک مسجد تعمیر کر وائی ایک روا یت یہ بھی ہے کہ شہر جا نے والا پہلا نو جوان جب لو گو ں کو لے کر غا ر میں پہنچا تو اس نے کہا

تم لو گ یہا ں پر ہی ٹھہرومیں پہلے انہیں خبر کر دوں اب یہ ان سے الگ ہو کر غا ر میں داخل ہو ا اللہ نے ان پر نیند طا ری کر دی با دشاہ اور اس کے ساتھی انہیں تلا ش کر تے رہ گئے نہ وہ ملا اور نہ ہی وہ غا ر نظر آئی اللہ پا ک نے ان کی نظروں سے غا رکو اور سب کو چھپا دیا تھا

اس کے با رے میں لو گ خیا ل ظا ہر کر تے ہیں کہ وہ سات تھے آٹھو ان ان کا کتا تھا یا وہ نو تھے دسواں ان کا کتا تھا بہر حا ل ان کی گنتی کا صحیح علم اللہ پا  ک کو ہی ہے

اللہ نے اپنے نبی سے ارشاد فر ما یا ان کے با رے میں زیا دہ بحث نہ کر یں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے زیا دہ دریا فت کر یں مشرکین کا دوسرا سوال تھا ذوالقرنین کو ن تھے ذوالقرنین کے با رے میں تفصیلا ت یو ں ملتی ہیں وہ ایک نیک خدا رسیدہ اور زبر دست با دشاہ تھا انہو ں نے تین بڑی مہما ت سر کی پہلی مہم میں وہ ایک مقام تک پہنچے جہا ں سورج غروب ہو تا ہے یہا ں انہیں ایک ایسی قوم ملے جس کے با رے میں اللہ نے انہیں آختیا ر دیا کہ چا ہیں تو انہیں سزا دیں چا ہیں تو ان کے ساتھ نیک سلو ک کریں