یہ سن کر حضرت خدیجہ نے کہا:آپ ﷺ کو خوشخبری ہو آپ ﷺ یقین کریں اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جا ن ہے آپ ﷺ ا سامت کےنبی ہو ں گے پھر سیدہ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھا ئی ورقہ بن نو فل کے پا س لےگئیں غا روالا سا را واقعہ انہیں سنا یا ورقہ بن نو فل پر انی کتا بو ں کے عالم تھے سا ری با ت سن کر وہ پکا ر اٹھے:
ورقہ بن نوفل سے ملا قات
قدوس ،قدوس قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جا ن ہے خدیجہ اگر تم سچ کہہ رہی ہو تو اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس کے پا س وہی نا مو س اکبر یعنی جبر ائیل جو مو سی کے پا س آیا کر تے تھے محمد اسی امت کہ نبی ہیں یہ اس با ت کر یقین کر لیں
قدوس کا مطلب ہے وہ ذات جو ہر عیب سے پا ک ہے یہ لفظ تعجب کے وقت بو لا جا تا ہے جیسے ہم کہہ دیتے ہیں اللہ اللہ ورقہ بن نو فل کو جبر ائیل کا نا م سن کر حیرت اس لئے ہو ئی تھی کہ عرب کے دوسرے شہروں میں لو گو ں نے یہ نا م سنا بھی نہیں تھا یہ بھی کہا جا تا ہے کہ ورقہ بن نو فل نے آپ ﷺ کر سر کا بو سہ لیا اور کہا :
کا ش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تک آپ ﷺ لو گو ں کو اللہ کی طر ف دعوت دیں گے میں آپ ﷺ کی مدد کر تا اس عظیم کا م میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا کا ش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو جھٹلا ئے گی آپ ﷺ کو تکا لیف پہنچا ئیں گی آپ ﷺ کے ساتھ جنگیں لڑیں جا ئیں گی اور آپ ﷺ کو یہا ں سے نکا ل دیا جا ئے گا اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ ﷺ کا ساتھ دوں گا اللہ کے دین کی حما یت کر وں گا
آپ یہ سن کر حیران ہو ئے اور فر ما یا میری قوم مجھے وطن سے نکا ل دے گی ؟ جو اب میں ورقہ نے کہا ہا ں اس لئے کہ جو چیز آپ ﷺ لے کر آئیں اسے لے کر جو بھی آیا اس پر ظلم ڈھا ئے گئے اگر میں نے وہ زما نہ پا یا تو ضرور آپ ﷺ کی مدد کر وں گا ورقہ نے حضرت خدیجہ سے یہ بھی کہا :تمھا رے خا وند درحقیقت سچے ہیں یہ با تیں نبو ت کی ابتداہیں یہ اس امت کے نبی ہیں
لیکن اس کے کچھ ہی مدت بعد ورقہ بن نو فل کا انتقال ہو گیا انہیں حجو ن کے مقام پر دفن کیا گیا چو نکہ انہو ں نے آپ ﷺ کی تصدیق کی تھی اس لئے نبی کریم ﷺ نے ان کے با رے میں فر ما یا کہ میں نے ورقہ کو جنت میں دیکھا ہے انہو ں نے سرخ لبا س پہنا ہو ا ہے
وحی کے نزول میں وقفہ
ورقہ سے ملا قات کے بعد نبی کریم ﷺ گھر تشریف لے آئے اس کے ایک مدت بعد جبرائیل نبی کریم ﷺ کے سا منے نہیں آئے درمیا ن میں جو وقفہ ڈالا گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی کریم ﷺ کے مبا رک دل پر جبز ائیل کو دیکھ کر جو خو ف پیدا ہو گیا ہے وہ زائل ہو جا ئے اور ان کے نہ آنے کی وجہ سے نبی کریم ﷺ کے دل میں وحی کا شو ق پید اہو جا ئے چنا نچہ ایساہی ہو ا
کئی با ر پہاڑ کی چو ٹی پر چڑھ گئے کہ وہا ں سے خود کو گرا کر ختم کر لیں لیکن جب بھی ایسا کر نے کی کو شش کی جبرائیل نبی کریم ﷺ کوپکا رتے : اے محمد نبی کریم ﷺ حقیقت اللہ کے رسول ہیں یہ کلما ت سن کر نبی کریم ﷺ سکو ن محسو س کر تے لیکن پھر وحی کا سلسلہ رک جا تا تو نبی کریم ﷺ پہا ڑ کی چو ٹی پر چڑھ جا تے چنا نچہ پھر جبر ائیل آتے اور نبی کریم ﷺ کو تسلی دیتے آخر دوبا رہ وحی آگئی
سورہ مدثر کی پہلی تین آیا ت اتری :
تر جمہ : اے کپڑے میں لپیٹنے والے اٹھو (یعنی اپنی جگہ سے اٹھو اور تیا ر ہو جا و)پھر کا فروں کو ڈراو اور پھر اپنے رب کی بڑائیا ں بیا ن کر واور اپنے کپڑ ے پا ک رکھو
اسی طر ح نبی کریم ﷺ کو نبو ت کے ساتھ تبلیغ کا حکم دیا گیا ابن اسحاق لکھتے ہیں سیدہ پہلی خا تو ں ہیں جو اللہ اور اس ک ے رسول پر ایما ن لا ئیں جو کچھ نبی کریم ﷺ لے کر آئے اس کی تصدیق کی مشرکین کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو جب بھی تکلیف پہنچی سیدہ نے نبی کریم ﷺ کو دلا سا دیا
ایما ن لا نے والے صحا بہ
سیدہ کے بعد دوسرے آدمی ابو بکر ہیں جو نبی کریم ﷺ نے پر انے دو ست ہیں انہو ں نے نبی کریم ﷺ کی زبا ن سے نبو ت کا سنتے ہی نبی کریم ﷺ کی با ت کی تصد یق کی اور ایما ن لے آئے بچوں میں سیدنا علی ہیں جو نبی کریم ﷺ پر ایما ن لا ئے ان کی ایما ن لا نے کا واقعہ کچھ ایسا ہے
ایک دن سید نا علی نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لا ئے اس وقت سیدہ خدیجہ بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھیں اور نبی کریم ﷺ ان کے ساتھ چھپ کر نما زپڑھ رہے تھے انہو ں نے یہ نئی با ت سن کر پو چھا یہ آپﷺ کیا کر رہے ہیں
نبی کریم ﷺ نے ارشا د فرما یا یہ وہ دین ہے جس کو اللہ پا ک اپنے لئے پسند فر ما تا ہے اور اس لئے اللہ پا ک نے اپنے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں میں بھی تمھیں اس دین کی طرف بلا تا ہوں لا ت اور عزی کی عبا دت سے روکتا ہو ں
حضرت علی نے یہ سن کر عرض کیا : یہ ایک نئی با ت ہے اس کے با رے میں آج سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنا اس لئے میں اپنے با رے میں کچھ نہیں کہہ سکتا پہلے اپنے والد سے مشورہ کر وں گاا