انہو ں نے ہجرت کے لئے دو اونٹنیا ں تیا ر کر رکھی تھیں انہو ں نے ان دنو ں کو آٹھ سو درہم میں خریدا تھا اور انہیں چار ما ہ سے کھلا پلا رہے تھے ادر مشرکین نے دیکھا کہ مسلما ن مد ینہ ہجرت کر کے جا رہے ہیں اور مد ینہ کے رہنے والے بڑے جنگ جو ہیں وہا ں مسلما ن روز بروز طا قت پکڑتے جا ئیں گے تو انہیں خؤ ف محسوس ہو ا کہ کہیں اللہ کے نبی بھی نہ مد ینہ چلے جا ئیں اور وہا ں انصا رکے ساتھ مل کر ہما رے خلا ف جنگ کی تیا ری کر نے لگیں تو وہ سب جمع ہو ئے اور سو چنے لگے کہ کیا قدم اٹھا ئیں
مشا ورت دارالندہ
یہ قر یش دار الند وہ میں جمع ہو ئے تھے دارالندوہ ان کےمشورہ کر نے کی جگہ تھی یہ پہلا پختہ مکا ن تھا جو مکہ میں تعمیر ہو ا قریش کے اس مشورے میں شیطا ن بھی شریک ہو ا وہ انسا نی شکل میں آیا تھا اور ایک بو ڑھے کے روپ میں تھا وہ دروازے پر آکر ٹھہر گیا اسے دیکھ کر لو گو ں نے پو چھا
آپ کو ن بزرگ ہیں اس نے کہا میں نجد کا سردار ہوں آپ لو گ جس غرض سے یہا ں جمع ہو ئے ہیں میں بھی اسے کے با رے میں سن کر یہا ں آیا ہو ں تا کہ لو گوں کی با تیں سنو اور اگر ہو سکے تو کو ئی مفید مشورہ بھی دوں
اس وقت قریشیو ں نے اسے اند بلا لیا اب انہو ں نے مشورہ شروع کیا ان میں سے کو ئی بو لا اس شخص ( ﷺ ) کا معا ملہ تو تم دیکھ ہی چکے ہو اللہ کی قسم اب ہر وقت کا خطر ہ ہے کہ اپنے نئے اور اجنبی مدد گا رو ں کے ساتھ مل کر حملہ کر ئے گا لہذا مشورہ کر کے اس با رے میں کو ئی ایک با ت طے کر لو
وہا ں مو جد ایک شخص الو الجختری بن ہشا م نے کہا کہ اسے بیڑیا ں پہنا کر ایک کو ٹھری میں بند کر دو اور اس کے بعد کچھ عر صہ تک انتظا ر کر و تا کہ اس کی بھی وہ ہی حا لت جو جا ئے جو اس سے پہلے شا عروں کی ہو چکی ہے اور یہ بھی انہیں کی طر ف سے مو ت کا شکا ر ہو جا ئے
اس پر شیطا ن نے کہا ہرگز نہیں یہ رائے بلکل غلط ہے یہ خبر اس کے ساتھیو ں تک پہنچ جا ئے تو وہ ہم پر حملہ کر دیں گے اور اپنے ساتھی کو نکا ل کر لے جا ئیں گے اس وقت تمھیں پچھتا نا پڑے گا لہذا کو ئی اور تر کیب سو چو اب ان میں بحث شروع ہو گئی اسود بن ربیعہ نے کہا ہم اسے یہا ں سے نکا ل کر جلا وطن کر دیتے ہیں پھر یہ ہما ری طر ف سے کہیں بھی چلا جا ئے ا س پر نجدی یعنی شیطا ن نے کہا
یہ رائے بھی غلط ہے تم دیکھتے نہیں کہ اس کی آواز کس قدر خو ب صو رت اور میٹھی ہے اور اپنا کلا م سنا کر لو گو ں کے دل مو ہ لیتا ہے اللہ کی قسم اگر تم نے اسے جلا وطن کر دیا تو تمھیں امن نہیں ملے گا یہ کہیں بھی جا کر لو گو ں کے دلو ں کو مو ہ لے گا اور پھر تم پر حملہ آور ہو گا اور تمھا ری یہ سا ری سرداری چھین لے گا لہذا کو ئی اور با ت سوچو
مشورہ ابوجہل
اس پر ابو جہل نے کہا کہ میری ایک را ئے ہے اور اس سے بہتر رائے کو ئی نہیں ہو سکتی سب نے کہا وہ کیا ہے اور ابو جہل نے کہا آپ لو گ ہر خا ند ان اور ہر قبیلے کا ایک ایک بہادر نو جو ان لیں ہر ایک کو ایک ایک تلو ار دیں ان سب کو محمد پر حملہ کر نے کے لئے صبح سو یرے بھجیں وہ سب ایک ساتھ اپنی تلوارو ں کا بھر پو ر وار کر یں اس طر ح اس کا قتل کر دیں اس سے یہ ہو گا کہ اس کےقتل میں سا رے قبیلے شا مل ہو جا ئیں گے لہذا محمد کے خا ند ان والو ں میں اتنی طا قت نہیں ہو گی کہ وہ ان سب سے جنگ کر یں لہذا وہ خو ن بہا لینے پر آما دہ ہو جا ئیں گے وہ ہم انہیں نہیں دیں گے
اس پر شیطا ن خو ش ہو کر بو لا ہا ں یہ ہے اعلی را ئے میرے خیا ل میں اس سے اچھی را ئے کو ئی نہیں ہو سکتی چنا نچہ سب نے اس رائے کو قبول کر لیا اللہ تعالی نے فورا جبرا ئیل کو رسول اکر م ﷺ کے پا س بھیجا اورانہو ں نے عرض کیا آپ رو زانہ جس بستر پر سو تے ہیں آج اس پر نہیں سو ئیں
اس کے بعد انہو ں نےمشرکین کی سا زش کی خبر دی چنا نچہ سو رہ الا انفا ل کی آیت 30 میں آتا ہے تر جمہ : اور اس واقعے کا بھی ذکر کریں جب کا فر لو گ آپ ﷺ کے لئے بری بری تد بیریں سو چ رہے تھے کہ گو ہا آپ ﷺ کو قید کر لیں قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تد بر کر رہا تھا اور سب سے مضبو ط تد بیر والا اللہ ہے
غرض جب رات ایک یہا ئی گزر گئی تو مشرکین کا ٹو لہ رسول اکرم ﷺ کے گھر تک پہنچ کر چھپ گیا وہ انتظا رکر نے لگے کہ کب وہ سو ئیں اور یک دم ان پر حملہ کر دیں ان کفا ر کی تعداد ایک سو تھی
مکہ کے غار ثور تک
ادھر حضو را کر م ﷺ نے حضرت علی سے فر ما یا تم میرے بستر پر سو جا و اور میری چادر اوڑھ لو پھر آپ ﷺ نے حضر ت علی کو تسلی دیتے ہو ئے فر ما یا تمھا رے ساتھ کو ئی نا خو ش گو ار واقعہ پیش نہیں آئے گا