مشرکیو ں کے جس گروہ نے آپ ﷺ کے گھر کو گھیر لیا تھا ان میں حکیم بن ابو العا ص عقبہ بن ابی معیط نصر بن حا رث اسید بن خلف زمعہ ابن اسو د اور ابو جہل شا مل تھے
رسول اللہ پر حملہ
ابو جہل اس وقت دبی دبی آواز میں کہہ رہے تھے کہ محمد کہتا ہے کہ اگر تم اس کے دین کو قبول کر لو تو تمھیں عرب اور عجم کی با د شا ہی مل جا ئے گی اور مرنے کے بعد دوبا رہ تمھیں زندگی عطا کی جا ئے گی وہا ں ایسی جنتیں اور با غا ت ہو ں گے جیسے اردن کے با غا ت ہو ں لیکن اگر تم میری پیروی نہیں کر و گے تم سب تبا ہ ہو جو ا گے مر نے کے بعد دوبا رہ زندہ کئے جا و گے وہا ں جہنم کی آگ تیا ر ہو گی اس میں تمھیں جلا یا جا ئے گا
نبی کر یم ﷺ نے اس کے یہ الفا ظ سن لئے آپ ﷺ یہ کہتے گھر سے نکلے ہا ں میں یقینا یہ با ت کہتا ہو ں اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنی مٹھی میں کچھ مٹی اٹھا ئی اور یہ آیت تلا وت فر ما ئی
ترجمہ: یسن قسم ہے حکمت والے قر آن کی بے شک آپ ﷺ پیغمبر وں کے گر وہ میں سے ہیں سیدھے راستے میں سے ہیں یہ قر آن زبر دست اللہ مہر با ن کی طر ف سے نا زل ہو ا تا کہ آپ ایسے لو گو ں کو ڈرائیں جن کے با پ دادا نہیں ڈرائے گئے سو اسی سے یہ بے خبر ہیں ان میں سے اکثر میں یہ با ت ثا بت ہو چکی ہے سو یہ لو گ ایما ن نہیں لا ئیں گے ہم نے ان کی گر دنو ں میں طو ق ڈ ال دیئے ہیں پھر وہ ٹھو ڑیو ں تک اڑ گئے ہیں
جس سے ان کے سر اوپر کو اٹھ گئے اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کر دی ہے اور آڑ ان کےپیچھے کر دی ہے جس سے ہم نے انہیں ہر طر ف سے گھیر لیا ہے سووہ دیکھ نہیں سکتے
سورہ یسین کا نزول
یہ سورہ یسین کی آیت 1تا 9 کا تر جمہ ہے ان آیا ت کی بر کا ت سے اللہ پا ک نے کفا ر کو وقتی طو ر پر اند ھا کر دیا وہ آپ ﷺ کو اپنے سامنے سے جا تے نہ دیکھ سکے
حضور اکر م ﷺ نے جو مٹی پھینکی تھی وہ اب ان سب کے سروں پر گری کو ئی ایک بھی ایسا نہیں بچا جس پر مٹی نہ گری ہو جب قریش کو یہ پتہ چلا کہ حضور اکرم ﷺ ان سب کے سروں پر خا ک ڈال کر جا چکے ہیں تو ہو گھر کے اند ر داخل ہوئے آپ ﷺ نے بستر پر حضرت علی چادر ڈالے سو رہے تھے وہ بولے
خد اکی قسم یہ تو اپنی چا در اوڑھے سو رہےہیں لیکن جب یہ چا در الٹی گئی تو بستر پر حضرت علی نظر آئےمشرکین حیرت ذدہ رہ گئے انہوں نے پو چھا یہ تمھا رے صا حب کہا ہیں مگر انہو ں نے چھ نہیں بتایا تو وہ حضرت علی کو ما رے ہو ئے با ہر لے آئے اور مسجد الحرم تک لا ئے کچھ دیر انہو ں نے انہیں راکے رکھا پھر چھو ڑ دیا
ہجرت مدینہ
اب حضور اکر م ﷺ کو ہجرت کے سفر پر روا نہ ہو ناتھا انہو ں نے جبرا ئیل سے پو چھا میرے سا تھ ہجرت کر نے والا دوسرا کو ن ہو گا انہو ں نے جو اب میں کہا کہ ابو بکر ہو ں گے حضور ﷺ اس وقت تک چا در اوڑھے ہو ئے تھے اس حا لت میں ابو بکر صد یق کے بھر تک پہنچے دروازے پر دستک دی تو حضرت اسما ء سے دروازہ کھولا رسول اکرم ﷺ کو دیکھ کر اپنے والد ابو بکر کو بتا یا کہ رسول اکرم ﷺ آئے ہیں اور چا در واڑھے ہو ئےہیں
یہ سن کر ابو بکر بو لے اللہ کی قسم رسول اکرم ﷺ اس وقت کسی خا ص کا م سے آئیں ہیں پھر انہوں نے آپ ﷺ کو اپنی چا ر پا ئی پر بٹھا یا اور آپ ﷺ نے ارشاد فر ما یا دو سرے لو گو ں کو یہا ں سے اٹھا دو حضرت ابو بکر نے عر ض کیا کہ اے رسول اللہ یہ سب میرے گھر والے ہیں اس پر آپ ﷺ نے فر ما یا مجھے ہجرت کی اجا زت مل گئی ہے ابو بکر صدیق بو ل اٹھے میرے ما ں با پ قر با ن کیا میں آکے ساتھ جا وں گا
جو اب میں حضور اکر م ﷺ نے فر ما یا ہا م تم میرے سا تھ جا و گے یہ سنتے ہی ما رے خو شی کے ابو بکر صد یق رو نے لگ گئے حضرت عا ئشہ صدیقہ فر ما تی ہیں میں نے اپنے والد کو روتے ہو ئے دیکھا تو حیران ہوئی اس لئے کہ میں اس وقت تک نہیں جا نتی تھی کہ انسا ن خو شی سے بھی رو سکتا ہے
پھر ابو بکر صدیق نے عر ض کیا کہ اے اللہ کی رسول میرے ما ں با پ بھی قربا ن آپ ﷺ پر آپ ﷺ ان دنو ں اونٹنیو ں میں سے ایک لے لیں میں نے اسے سفر کے لئے تیا ر کیا ہے رسول اکر م ﷺ نے فر ما یا میں اس کی قیمت دے کر لو ں گا یہ سب کر ابو بکر رو نے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ﷺ میرے ما ں با پ قر با ن میں اور میرا س ما ل تو آپ ﷺ کا ہی ہے آپ ﷺ نے ایک اونٹنی لے لی
بعض روایا ت میں اتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اونٹنی کی قمیت دے دی تھی اس اونٹنی کا نا م قصوی تھا یہ آپ ﷺ کی وفا ت تک آپ ﷺ کے پا س رہی حضرت ابو بکر صدیق کی خلا فت میں اس کی مو ت واقع ہو ئی
سیدہ عا ئشہ فر ما تی ہیں کہ ہم نے ان دو نو ں اونٹنیو ں کو جلدی جلدی سفر کے لئے تیار کیا