سیرت النبی،نماز کی ابتدا

یہ بھی یا د رکھیں کی معراج کے واقعے میں حضوا کرم ﷺ کا آسما نو ں پر  جا نا وا ضح کر تا ہے کہ یہ آسما ن حقیقت میں ہیں مو جو دہ ترقی تا فتہ سا ئنس کا یہ نظریہ ہے کہ آسما ن کا کو ئی وجود نہیں بلکہ یہ کا ئنا ت ایک عظیم خلا ہے انسانی نگا ہ جہا ں تک جا کر رک جا تی ہے وہا ں اس خلا کی مختلف روشینو ں کے پیچھے ایک نیلگو ں حد نظر آتی ہے اس نلیگو ں حد کو انسان آسما ن کہتا ہے

لیکن اسلا می تعلیم نے ہمیں یہ بتا یا ہے کہ آسما ن مو جود ہے اور آسما ن اسی ترتیب سے مو جود ہیں جو قر آن اور حدیث نے بتا ئی ہیں قر آن مجید کی بہت سی آیا ت میں سا تو ں آسما نو ں کا ذکر ہے جس سے معلو م ہو تا ہے کہ آسما ن ایک اٹل حقیقت ہے نہ کہ نظر کا دھو کہ

الحمدا للہ معراج کا بیا ن تکمیل کو پہنچا اس کے بعد سیرت النبی میں قد م بہ قدم ہم معراج کے بعد کے واقعا ت بیا ن کر یں گے ان شا اللہ

کا میا بی کی ابتدا :

حج کے دنو ں میں مکہ سے دو ر دور سے لو گ حج کر نے آتے تھے یہ حج اسلا می طر یقے سے نہیں ہو تا بلکہ اس میں کفریہ اور شرکیہ با تیں ا مل کرلیں گئیں تھیں ان دنو ں یہا ں میلے بھی لگتے تھے نبی کریم ﷺ میلو ں میں اسلا م کی دعوت دینے جا یا کر تے تھے آپ ﷺ وہا ں پہنچ کر فر ما تے کیا کو ئی شخص مجھے اپنی قوم کی حما یت پیش کر سکتا ہے کیو نکہ قر یش کے لو گ مجھے اپنا پیغا م پہنچا نے سے رو کتے ہیں

نبی کریم ﷺ منی کے مقا م پر تشریف لے جا تے لو گو ں کے ٹھکا نے پر جا تے اور ان سے فر ما تے لو گو ں اللہ پا ک تمھیں حکم دیتا ہے کہ اس کی عبا دت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراونبی کر یم ﷺ کا تعاقب کر تے ہو ئے ابو لہب بھی وہا ں پہنچ جا تا اور ان لو گو ں سے بلند آواز میں کہتا کہ لو گو ں کہ شخص چا ہتا ہے کہ تم اپنے با پ دادا کا دین چھو ڑ دو

نبی کر یم ﷺ ذو الحجا ز کے میلے میں تشریف لے جا تے اور لو گو ں سے فر ما تے لو گو لا الہ الا اللہ کہہ کر بھلا ئی کو حا صل کرو ابو لہب یہا ں بھی آجا تا اور آپ ﷺ کو پتھر ما رے ہو ئے کہتا لو گو ں اس شخص کی با ت ہز گز نہ سنو یہ جھو ٹا ہے نبی کریم ﷺ قبیلہ کندہ اور قبیلہ کلب کے خا ندان کے پا  س گئے ان لو گو ں کو بنو عبد اللہ کہا جا تا ہے آپ ﷺ نے ان سے فر ما یا

لو گو لا الہ الا اللہ پڑھا کرو فلا ح پا جاو گے انہو ں نے بھی اسلا م کی دعو ت قبول کر نے سے ا نکا ر کر دیا آپ ﷺ بنو حنیفہ اور بنو عا مر کے لو گو ن کے پا س گئے ان میں سے ایک نے آپ ﷺ کا پیغا م سن کر کہا

اگر ہم آپ ﷺ کی بات ما ن لیں آپ ﷺ کی حما یت کر یں اور آپ ﷺ کی پیروی قبول کر لیں پھر اللہ پا ک آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے مخا لفو ں پر فتح عطا فر ما دے تو کیا آپ ﷺ کے بعد یہ سرداری اور حکو مت ہما رے ہا تھو ن میں آجا ئے گی یعنی انہو ں نے یہ شرط رکھی کہ آپ ﷺ کے بعد حکمرانی ان کی ہو گی آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا ؛

سرداری اور حکو مت اللہ کے ہا تھ میں ہے وہ جسے چا ہے سو نپ دیتا ہے اس کے بعد اس شخص نے کہا تو کیا ہم آپ ﷺ کی حما یت میں عر بو ں سے لڑیں عر بو ں کے نیزوں سے اپنے سینے چھلنی کر والیں اور پھر جب آپ ﷺ کا میا ب ہو جا ئیں تو سرداری اور حکو مت دوسروں کو ملے نہیں ہمیں آپ ﷺ کی ایسی حکو مت اور سرداری کی کو ئی ضرورت نہیںاس طر ح ان لو گو ں نے بھی صا ف انکا ر کر دیا بنو عا مر کے یہ لو گ پھر اپنے وطن لو ٹ گئے وہا ں ان کی ایک بہت بڑا شخص تھا بڑا ہو نے کہ وجہ سے وہ اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ حج کے لئے نہیں جا سکا تھا جب اس نے لو گو ں سے میلے اور حج کے حالا ت کے با رے میں پو چھا تو لو گوں نے نبی کر یم ﷺکی دعوت کے با رے میں بھی بتا یا اور اپنا جو اب بھی بتا یا

بو ڑھا شخص سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور افسوس بھرے لہجے میں بو لا اے بنو عا مر تم سے بہت بڑی غلطی ہو ئی کیا تمھا ری اس غلطی کا کو ئی علا ج ہو سکتا ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میرے جا ن ہے اسما عیل کی قوم میں سے جو شخص نبو ت کا دعوی کر رہا ہے وہ جھو ٹا نہیں ہو سکتا وہ سچا ہے یہ اور با ت ہے کہ اس کی سچا ئی تمھا ری عقل میں نہ آسکی

اس طر ح نبی کر یم ﷺ نے بنو عبس ،بنو سلیم ،بنو غسان ،بنو محارب ،بنوفزارہ بنو نصر اور بنو مرہ بنو عذرہ سمیت کئی قبیلو ں سے بھی ملے ان سب سے آپ ﷺ کو اور بھی برے جو ابا ت دیئے وہ کہتے  آپ ﷺ کا گھرانہ اور آپ ﷺ کا خا ندان آپ ﷺ کو زیا دہ چا ہتا ہے اسی  لئے انہوں نے آپ ﷺ کی پیر وی نہیں کی عر ب قبیلوں میں سب سے زیا دہ تکلیف یما مہ کے بنو حنیفہ سے پہنچی مسلمہ کذاب بھی اسی بد بخت قوم کا تھا جس نے نبو ت کا دعو ی کیا تھا اسی طر ح بنو ثقیف کے قبیلے نے بھی آپ ﷺ کو بہت برا جو اب دیا

کتا ب کے تا لیف عبداللہ فا رانی