سیرت النبی حصہ 18

میثا ق مد ینہ کی کہا نی ؛

کسی بھی علا قے میں رہنے کے لیے ضروری ہوتا وہاں امن واما ن ہو ۔ اگر لو گ آپس میں لڑتے رہیں تو وہاں رہا  نہیں جا تا ۔

مد ینہ میں پہلے اوس خز رج رہتے تھے ۔ آپ ﷺ نے ان کی صلح کرا دی اور ہجر ت کر کے آنے والے مسلما نو ں کو ان کا بھا ئی بنا دیا ۔ اس طرح سب مسلما ن ایک ہو گئے ۔

مد ینہ میں یہو دی بھی رہتے تھے ۔ انسا ن جب ایک جگہ  پر رہتے ہیں تو کسی نہ کسی با ت پر لڑ ائی ہو ہی جا تی ہے ۔ ہر بندہ سمجھتا ہے کہ وہی سچا ہے لہذا  لڑئی ختم کر نے کے لئے کسی نہ  کسی کو بطو ر جج فیصلہ کر نا ہو تا ہے تا کہ لڑائی ختم ہو جا ئے ۔

مسلمانو ں اور یہو دیو ں کو لڑائی سے بچا نے کے لئے

آپ ﷺ نے یہو دیو ں کا ساتھ ایک معا ہدہ کیا جس میں آپ ﷺ کو مد ینہ کا سربراہ ما نا گیااور یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ

کسی بھی لڑائی کی صو رت میں آپ ﷺ ہی فیصلہ کر یں گے ۔

اگر یہو دیو ں کا کو ئی دشمن یہو دیو ں پر حملہ کر گا تو مسلما ن یہو دیو ں کے ساتھ مل کر ان کا مقا نلہ کر یں گے ۔

اور اگر مسلما نو ں کا کو ئی دشمن ان پر حملہ کر ے گا تو یہو دی مسلما ن وں کے ساتھ مل کر اس کے خلا ف لڑ یں گے ۔

عر بی میں معا ہدہ ایگر یمنٹ کو میثا ق کہتے ہیں اور شہر کو مد ینہ کہتے ہیں ۔

اسی لئے مد ینہ پا ک کی حفا ظت کے لئے مسلما نو ں اور یہو دیو ں کے در میا ن ہو نے والے معا ہدے  کو میثا ق مدینہ یعنی شہر کی حفا ظت کا ایگر یمنٹ کہتے ہیں ۔

اس طرح مد ینہ ایک محفو ظ پر امن اور فلا حی ریا ست بن گیا ۔

غزوہ بد ر کی کہا نی

جب مسلما ن مد ینہ آئے تھے اسی وقت سے کا فرو ں سے چھو ٹی چھو ٹی جھڑ پیں شروع ہو گئی تھیں ۔ کا فر یہ با ت پسند نہیں کر تے تھے کہ مسلما ن امن سے رہیں ۔ انہو ں نے مسلما نو ں کو ہر طرح سے تکلیف دینے کی کو شش کی ۔

اس با ت کا    انداز یو ں لگا ئیں کہ جب مسلما ن مکہ چھو ڑ کر مد ینہ جا رہے تھے ان کی قیمتی جا ئیدا دیں ضبط کر لیں ، ان کے مکا نا ت پر قبضہ کر لیا ، ان سے ما ل چھین لئے تا کہ یہ اسے اپنے ساتھ نہ لئے جا سکیں ۔

امیر مسلما ن جب ہجر ت کر کے گئے تو ان کے پاس کچھ نہ تھا اور کا فر ان کے ما ل پر قبضہ کر کے عیا شیا ں کر رہے تھے ۔

نبی پا کﷺ کو جب معلو م ہو ا کہ مکہ والو ں کا ایک تجا رتی قا فلہ ملک شا م سے واپس آرہا ہے تو آپ ﷺ نے ان کے با رے میں مز ید معلو ما ت لیں ۔ یہ قا فلہ چا لیس افراد پر مشتمل تھا جس میں قر یبا ایک ہزا ر اونٹ اور پچا س ہزا ر دینا ر کے برابر ما ل تھا ۔

پر وگرا م یہ بنا کہ یہ ما ل ان سے لے لیا جا ئے گا ۔

یہ کو ئی ظلم نہ تھا ۔ یہا ں سے ما ل لیا جا تا اور وہ لو گ مکہ جا کر وہاں جو ما ل مسلما نو ں سے زبر دستی چھینا تھا ، اس میں سے اپنا نقصا ن ہو را کر لیتے ۔ویسے بھی ظلم کی ابتدا تو انہو ں نے کی تھی ۔ مسلما نو ں سے ان کا ما ل چھینا ، ما را پیٹا ، قتل کیا حتی کہ گھر وں سے نکا ل دیا ۔  لہذا مسلما نو ں کا ان سے ما ل لینے کے لئے نکلنا کو ئی ظلم نہ تھا ۔

بہر حا ل جب قا فلے  کے سردار ابو سفیا ن کو اس پرو گرا م کا علم پوا تو اس نے ایک  بند ے کو پیسے دے کر جلدی جلد ی مکہ بھیجا کہ انہیں کہو ہما ری مدد کے لئے آئیں ۔

مکہ والو ں نے جب یہ پیغا م سنا تو سب ہی تیا ر ہو گئے ۔ ابو جہل کی قیا دت میں تیرہ سو بندو ں کا لشکر مد ینہ کی طرف چل پڑا ۔    ان کے ساتھ بے شما ر اونٹ ، سو گھوڑے اور سو ز  رہیں تھیں ۔ اس زما نے میں لڑائیا ں تلو ر اور تیر سے ہو تے تھیں ۔ لہذا تلوا روں اور تیروں سے بچنے کے لئے لو ہے کی ایک جیکٹ پہنی جا تی جسے ذرہ کہتے  تھے ، ان    کے پا س یہ بھی چھ سو کے قر یب تھیں ۔ اپنی طرف سے یہ لو گ بر ے تکبر سے چلے تھے کہ مسلما ن وں کو قتل کر دیں گے ۔

دوسری طرف نبی پا ک ﷺ قر ینا تین سو تیراہ افراد کے ساتھ چل پڑ ے ، جن میں زیا دہ انصاری تھے ۔ مسلما ن وں کے پا س صر ف دو گھو ڑ ے اور سترا اونٹ  تھے ۔

ابو سفیا ن کو جب اندا زہ ہو گیا کہ نبی پا ک ﷺ اس کے قر یب پہنچ جا ئیں گے تو وہ جلدی جلدی راستہ بد ل کر قا فلے سمیت بھا گ گیا ۔

مکہ والو ن کو جب پتا چلا کہ ابو سفیا ن بچ کر بھا گ گیا ہے اور قا فلہ بھی بچ گیا ہے تو ان میں سے بہے سے کہنے لگے کہ جس کی حفا  ظت کے لئے آئے تھے وہ تو بچ گیا ہے لہذا اب واپس چلتے ہیں ۔ ابو جہل کہنے لگا میں نے واپس نہیں جا نا ۔

بہر حا ل تین سو بند ے واپس چل پڑ ے جس کا م کے لئے لڑ نے آئے تھے وہ تو مسئلہ حل ہو گیا لیکن ابو جہل ہزا ر بندو ں کے لئے کر آگے چل پڑا ۔

جب نبی پا ک ﷺ کو پتا چلا کہ ابو سیفا ن کا قا فلہ بھا گ گیا ہے لیکن ابو جہل جنگ کے لئے آ چکا ہے تو آپ ﷺ نے صحا بہ ؑ سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جا ئے ؟مہا جرصحا بہ ؑ اس حو لے سے سچھی با تیں کی لیکن انصا ر کی تعدا زیا دہ تھی اس لئے  آپ ﷺ ان سے ان کی رائے لینے کے لئے با ر با ر پو چھ رہے تھے تو انصا ر کے سردا ر سعد بن معا ذ ؑ نے کہا کہ ہم مو سی علیہ اسلا م کی طرح آپ ﷺ کو یہ نہیں کہیں گئے کہ جب ان پر جہا د کا وقت ایا تو انہو ں نے مو سی علیہ اسلا م کو کہا تھا کہ ہم یہیں بیٹھے ہیں اور آپ کا رب لڑے ۔ اس با ت سے آ پﷺ مطمن ہو گئے ۔

محمد صا رم (مسلم ریسرچ سنٹر سے اقتبا س )

Leave a Reply