یہ در اصل میرا پو تا ہے اس کے با پ کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب یہ پیدا بھی نہیں ہو ا تھا ۔
اس پر پا دری بو لا :
ہا ں ! یہ با ت ہو ئی نا : آپ اس کی پو ری طر ح حفا ظت کر یں ۔
عبد المطلب کی آپ سے محبت کا یہ عا لم تھا کہ کھا نا کھا نے بیٹھتے تو کہتے :
“میر ے بیٹے کو لے آؤ ۔”
آپ تشر یف لا تے تو عبد المطلب آپ کو اپنے پا س بیٹھا تے ۔ آپ کو اپنے ساتھ کھلا تے ۔
بہت زیا دہ ایک عمر والے صحا بی حیدہ بن معا ویہ ؑ کہتے ہیں
“میں ایک مر تبہ اسلا م سے پہلے ، جا ہلیت کے زما نے میں حج کے لئے مکلہ معظمہ گیا ۔ وہا ں بیت اللہ کا طوا ف کر رہا تھا ۔ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا ، جو بہت بو ڑ ھا اور بہت لمبے قد کا تھا ۔ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا اے پر ور دگا ر میری سوا ری کو محمد کی طر ف پھیر دے اور اسے میرا دست و با زو بنا دے ۔ میں نے اس بو ڑ ھے کو جب شعر پڑ ھتے سنا تو لو گو ں سے پو چھا :
” یہ کو ن ہے ؟”
لو گو ں نے بتا یا کہ یہ عبد المطلب بن ہاشم ہیں ۔ انہو ں نے اپنے پو تے کو ایک اونٹ کی تلا ش میں بھیجا ہے ۔ وہ اونٹ گم ہو گیا ہے ، اور وہ پو تا ایسا ہے جب بھی کسی گم شدہ چیز کی تلا ش میں اسے بھیجتا ہے تو وہ چیز لے کر ہی آتا ہے ۔ پو تے سے پہلے یہ اپنے بیٹو ں کو اس اونٹ کی تلاش میں بھیج چکے ہیں ، لیکن وہ نا کام لو ٹ آئے ہیں ،اب چو نکہ پو تے کو گئے ہو ئے دیر ہو گئی ہے اس لیے پر یشا ن ہیں اور دعا ما نگ رہیں ہیں ۔ تھو ڑی ہی دیر گز ری تھی کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ اونٹ کے لیے تشر یف لا رہے ہیں ۔ عبد المطلب نے آپ کو ، دیکھ کر کھا ؛
“میر ے بیٹے ! میں تمہا رے لیے اس قدر فکر مند ہو گیا تھا کہ شا ید اس کا اثر میر ے دل سے کبھی نا جا ئے ۔
عبد المطلب کی بیو ی کا نا م ر قیہ بنت ابو سیفی تھا ۔ وہ کہتی ہیں :
قر یش کئی سا ل سے سخت کحط سا لی کا شکار تھے ،با رشیں بلکل بند تھیں ، سب لو گ پر یشا ن تھے ، اسی زما نے میں ، میں نے ایک خو اب دیکھا ، کو ئی شخص خو اب میں کہہ رہا تھا ،
اے قر یش کے لو گو ، تم میں سے ایک نبی ظا ہر ہو نے والا ہے ، اس کے ظہو ر کا وقت آ گیا ہے ، اس کے ز ر یعے تمہیں ز ند گی ملے گی ، یعنی خو ب با ریشیں ہو ں گی ، سر سبزی اور شا دا بی ہو گی تم اپنے لو گو ں میں سے ایک ایسا ژخص تلا ش کر و جو لمبے قد کا ہو ، گو رے رنگ کو ہو ، اس کی پلکیں گھنی ہو ں ، بھنو یں اور ابرو ملے ہو ہو ں ، وہ شخص اپنی تما م اولا د کے سا تھ نکلے اور تم میں سے ہر خا ندا ن کا ایک آدمی نکلے ، سب پا ک صا ف ہو ں اور خو شبو لگا ئیں ، اور ہجر ے اسود کو بو صہ دیں پھر سب جبل ابو کیس پر چڑ ھ جا ئیں ، پھر وہ شخص جس کا حلیہ بتا یا گیا ہے ، آگے بڑ ھے اور با ر ش کی دعا ما نگے اور تم سب آمین کہو تو با رش ہو جا ئے گی ، صبح ہو ئی تو ر قیہ نے اپنا یہ خو اب قر یش سے بیا ن کیا ، انہو ں نے ان نشا نیو ں کو تلا ش کیا تو سب کی سب نشا نیا ں انہیں ابو مطلب میں مل گئیں ، چنا نچہ سب ان کے پا س جمع ہو ئے ، ہر خا ندا ن سے ایک ایک آدمی آیا ، ان سب نے شرا ئط پو ری کیں ، اس کے بعد ابو کیس پہآ ڑ پر چڑ ھ گئے ، ان میں نبی کر یم ﷺ بھی تھے ،آپ اس وقت 9 عمر تھے ، پھر ابع مطلب آگے بڑ ھے اور انہو ں نے یو ں دعا کی ، اے اللہ یہ سب تیر ے غلا م ہیں ، تیر ے غلا مو ں کی اولا د ہیں ، تیر ی با ند یا ں ہیں اور تیر ی با ندیو ں کی اولا د ہیں ، ہم پر جو بو را وقت آ پڑا ہے تو دیکھ رہا ہے ، ہم مسلسل کحط کا شکا ر ہیں ، اب اونٹ ، گا ئیں ، گھو ڑ ے ، خچر اور گد ھے سب کچھ ختم ہو چکے ہیں اور جا نو رو ں پر بن آئی ہے ، اس لیے ہما ری یہ خشک سا لی ختم فر ما دیں ہمیں زندگی سر سبزی اور شا دا بی عطا فر ما دیں ،
ابھی یہ دعا ما نگ ہی رہے تھے کہ با رش شروع ہو گئی ، وا دیا ں پا نی سے بھر گئیں لیکن اس با ر ش میں ایک بہت عجیب با ت ہو ئی اور وہ عجیب با ت یہ تھی کہ قر یش کو یہ سیرابی ضرور حا صل ہو ئی مگر یہ با رش قبیلہ کیس اور قبیلہ مضر کی قر یبی بستیو ں میں بلکل نا ہو ئی ، اب لو گ بہت حیرا ن ہو ئے کہ یہ کیا با ت ہو ئی ، ایک قبیلہ پر با رش اور آس پا س کے سب قبیلے با رش سے مہروم ، تما م قبیلو ں کے سردار جمع ہو ئے ، اس سلسلے میں با ت چیت شروع ہو ئی ، ایک سردار نے کہا ، ہم زبر دست کحط اور خشک سا لی کا شکا ر ہیں جب کہ قر یش کو اللہ تعا لیٰ نے با ر ش عطا کی ہے اور یہ ابو مطلب کی وجہ سے ہو ا ہے اس لیے ہن سب ان کے پا س چلتے ہیں ، اگر وہ ہما رے لئے دعا کر دیں تو شا ید اللہ ہمیں بھی با رش دے دے ،