ابو طا لب نے آپ ﷺ کا شو ق دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم میں اسے ساتھ ضرور لے جا ؤں گا نہ یہ کبھی مجھ سے جدا ہو سکتا ہے اور نہ میں اسے کبھی اپنے سے جدا کر سکتا ہو ں
خانقاہ کے را ہب سے ملا قات
ایک روایت میں یو ں آیا کہ آپ ﷺ ابو طا لب کی اونٹنی کی لگا م پکڑ لی اور فر ما یا چچا جا ن آپ مجھے کس کے پا س چھو ڑے جا رہے ہیں نہ میری ما ں ہے اور نہ ہی با پ اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبا رک نو سا ل تھی آخر ابو طا لب آپ ﷺ کو ساتھ لے کر روانہ ہو ئے اپنی اونٹنی پر ساتھ بٹھا یا راستے میں عیسا ئیو ں کی ایک عبا دت گا ہ کے پا س ٹھہرے خانقاہ کے را ہب نے آپﷺ کو دیکھا کو چو نک آٹھے اس نے ابو طا لب سے پو چھا یہ لڑکا تمھا را کو ن ہے انہو ں نے جو اب دیا یہ میرا بیٹا ہے اس نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہو سکتا یہ سن کر ابو طا لط بہت حیران ہو ئے اور بو لے کیا مطلب یہ کیو ں میرا بیٹا نہیں ہو سکتا بھلا ؟
یہ ممکن ہی نہیں کہ اس لڑکے کا با پ زندہ ہو یہ نبی ہے مطلب یہ تھا کہ اس میں جو نشا نیا ں ہیں وہ دنیا کہ آخری نبی کی ہیں اور ان کی ایک علا مت یہ ہے کہ وہ یتیم ہو ں گے ان کے با پ کا انتقال اسی زما نے میں ہو جا ئے گا اس لڑکے میں آنے والے نبی کہ تما م علا مات مو جو د ہیں ان کی نشا نی ایک یہ ہے کہ بچپن میں ہی ان کی والدہ کا بھی انتقال ہو جا ئے گا
اب ابو طا لب نے اس را ہب سے پو چھا کہ نبی کیا ہو تا ہے نبی وہ ہو تا ہے جس کے پا س آسما ن سے خبریں آتی ہیں اور پھر وہ زمین والوں کو ان کی اطا ع دیتا ہے تم یہودیو ں سے ان لڑکے کی حفا ظت کر نا اس کے بعد ابو طا لب وہا ں سے روانہ ہو ئے راستے میں ایک اور راہب کے پا س ٹھہرے یہ بھی ایک خا نقاہ کا عا بد تھا اس کی نظر بھی نبی کر یم پر پڑی تو یہ ہی پو چھا یہ لڑکا تمھا را کیا لگتا ہے ابو طا لب سے اس سے بھی یہ ہی کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے راہب یہ سن کر بو لا کہ یہ تمھا را بیٹا نہیں ہو سکتا اس کا با پ زندہ ہو ہی نہیں سکتا ابو طا لب نے پو چھا وہ کیو ں ؟
عالم بحیراسے ملا قات
راہب نے جو اب دیا اس لئے اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے اس کی آنکھیں ایک نبی کہ آنکھیں ہیں یعنی اس نبی جیسی وہ آخری امت کے لئے بھیجے جا نے والے ہیں ا ن کی علا مات پرانی آسما نی کتا بو ں پر مو جو د ہیں اس کے بعد یہ قا فلہ روانہ ہو کر بصری پہنچا یہا ں کا بحیرا نا م کا ایک را ہب اپنی خا نقا ہ میں رہتا تھا اس کا اصل نا م جر جیس تھا بحیرا اس کا لقب تھا وہ بہت زبر دست عالم تھا
حضرت عیسی کے زما نے سے اس خا نقا ہ کا را ہب نسل در نسل یہ عالم فا ضل خاندان ہی چلا آہا تھا اس طر ح اس زما نے میں ان کا سب سے بڑا عالم بحیرا ہی تھا
قریش کے لو گ اکثر بحیرا کے پا س سے گزرتے تھے مگر اس نے ان سے کبھی با ت نہیں کہ تھی مگر اس با ر اس نے آپ ﷺ کو قا فلے میں دیکھ لیا تو پو رے قا فلے کے لئے کھا نا تیا ر کروایا
بحیرا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ نبی کر یم پر ایک بد لی سا یہ کئے ہو ئے تھی جب یہ قا فلہ ایک درخت کے قر یب روکا تو اس نے بد لی کی طر ف دیکھا وہ اب اس درخت پر سایہ ڈال رہی تھی اور اس درخت کی شا خیں اس طر ف جھک گئیں تھیں جس طر ف نبی کر یم ﷺ مو جو د تھے اس نے دیکھا بہت سی شا خو ں نے آپ ﷺ کے اوپر جمگھٹا کر لیا ہے اصل میں یہ ہو ا کہ نبی کر یم ﷺ جب اس درخت کے پا س پہنچے تو قا فلے کے لو گ پہلے ہی سایہ دار جگہ پر قبضہ کر چکے تھے اب آپ ﷺ کے لئے کو ئی سایہ دار جگہ نہیں بچی تھی جب آپ ﷺ دھو پ میں بیٹھے تو شا خؤ ں نے رخ آپ ﷺ کی طر ف کر لیا اور آپ ﷺ کے اوپر جمع ہو گئیں اس طر ح آپ ﷺ مکمل طور پر سا ئے میں ہو گئے بحیرا نے یہ منظر دیکھا تھا یہ نشا نہ نشا نی دیکھ کر اس نے قا فلے والو ں کو پیغا م بھیجوا یا
اے قریشیو میں نے آپ ﷺ کے لئے کھا نا تیا ر کر وایا ہے میری خو اہش ہے کہ آپ تما م لو گ کھانا کھا نے آئیں یعنی بچے بوڑھے اور غلا م سب آئیں بحیرا کا پیغام سن کر قا فلے میں سے ایک نے کہا اے بحیرا آج تو آپ نیا کا م کر رہے ہیں ہم تو اکثر اس جگہ سے گزرتے ہیں آپ نے کبھی دعو ت کا انتظا م نہیں کیا پھر آج کیا با ت ہے بحیرا نے صرف انہیں اتنا جو اب دیا تم نے ٹھیک کہا بس آپ لو گ مہما ن ہیں اور مہما ن کا احترام کر نا بہت ضروری ہے اس طر ح تما م لو گ بحیرا کے پا س پہنچ گئے لیکن اللہ کے رسول ﷺ ان کے ساتھ نہیں تھے انہیں پڑاو میں ہی چھو ڑ دیا گیا تھا آپ ﷺ کو قا فلے کے ساتھ اس لئے نہیں لے کر جا یا گیا کہ آپ ﷺ کم عمر تھے آپ ﷺ وہیں درخت کے نیچے بیٹھ گئے ادھر بحیرا نے لو گو ں کو دیکھا تو ان میں سے کسی میں اسے وہ صفت نظر نہیں آئی جو آخری نبی کے با ری میں اسے معلو م تھیں نہ ان میں سے کسی پر وہ بد لی نظر آئی بلکہ اس نے عجیب با ت دیکھی کہ وہ بد لی وہیں پڑاو کی جگہ پر رہ گئی ہے اس کا صا ف مطلب یہ تھا کہ بد لی وہیں ہے جہا ں رسول اللہ ﷺ ہیں