حضرت عمرو بن جموح ؓ
غزوہ احد میں جنگ کے دوران ایک مشرک ابن عویف جنگجو اپنی صفوں سے نکل کر آگے آیا اور مقابلے کے لئے للکارا، ایک صحابی آگے بڑھے اور ابن عویف پر تلوار کا وار کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا:”لے میرا وار سنبھال! میں ایک فارسی غلام ہوں ۔ “ابن عویف کی زرہ کندھے پر سے کٹ گئی، تلوار اس کے کندھے کو کاٹ گئی، نبی اکرم نے ان کا جملہ سنا تو فرمایا: “تم نے یہ کیوں نہ کہا کہ لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔ “اب ابن عویف کا بھائی آگے بڑھا، ان صحابی نے اس پر وار کیا اور اس کی گردن اڑادی، اس مرتبہ انہوں نے وار کرتے ہوئے کہا:”لے میرا وار سنبھال! میں ایک انصاری غلام ہوں ۔ “اس پر رسول اللہ مسکرائے اور فرمایا:”تم نے خوب کہا۔ “اسی غزوہ میں حضرت عمرو بن جموح ؓ بھی شہید ہوئے۔ یہ لنگڑے تھے، ان کے چار بیٹے تھے، جب یہ جنگ کے ارادے سے چلنے لگے تو چاروں بیٹوں نے ان سے کہا تھا:”ہم جا رہے ہیں آپ نہ جائیں ۔ “اس پر عمرو بن جموح ؓ حضور نبیٔ کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے:اللہ کے رسول! میرے بیٹے مجھے جنگ میں جانے سے روک رہے ہیں مگر اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤں ۔ ” آپ نے ارشاد فرمایا:”تم معذور ہو، لہٰذا تم پر جہاد فرض نہیں ہے۔ “دوسری طرف آپ نے ان کے بیٹوں سے فرمایا:”تمہیں اپنے باپ کو جہاد سے روکنا نہیں چاہیے، ممکن ہے اللہ انہیں شہادت نصیب فرمادے۔ “یہ سنتے ہی حضرت عمرو بن جموح ؓ نے ہتھیار سنبھالے اور نکل کھڑے ہوئے، انہوں نے اللہ سے دعا کی:اے اللہ! مجھے شہادت کی نعمت عطا فرما اور گھر والوں کے پاس زندہ آنے کی رسوائی سے بچا۔ “چنانچہ یہ اسی جنگ میں شہید ہوئے، نبی اکرم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تم میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر وہ کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ تعالٰی ان کی قسم کو پورا کردیتے ہیں انہی لوگوں میں سے عمرو بن جموح بھی ہیں ، میں نے انہیں جنت میں ان کے اسی لنگڑے پن کے ساتھ چلتے پھرتے دیکھا ہے۔ “اسی جنگ میں ان کے ایک بیٹے خلاد ؓ بھی شہید ہوئے اور ان کے سالے عبداللہ ؓ بھی شہید ہوئے یہ حضرت جابر ؓ کے والد تھے۔
حضرت عمرو بن جموح ؓ کی بیوی کا نام ہندہ بنت حزام تھا، جنگ کے بعد یہ اپنے شوہر، اپنے بیٹے اور اپنے بھائی کی لاشیں ایک اونٹ پر ڈال کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہونے لگیں ، تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں دفن کیا جا سکے، لیکن اونٹ نے آگے جانے سے انکار کردیا اور بیٹھ گیا۔ اس کا رخ میدان احد کی طرف کیا جاتا تو چلنے لگتا، مدینہ منورہ کی طرف کرتے تو بیٹھ جاتا، آخر حضرت ہندہ ؓ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ صورت حال بیان کی، یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا:”یہ اونٹ مامور ہے (یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ یہ مدینہ نہ جائے) اس لئے ان تینوں کو یہیں دفن کردو۔ ”
سعد بن ربیع
یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے پوچھا تھا کہ کیا عمرو بن جموح نے چلتے وقت کچھ کہا تھا، تب آپ کو بتایا گیا کہ انہوں نے سعد بن ربیع دعا کی تھی: اے اللہ! مجھے زندہ واپس آنے کی رسوائی سے بچانا۔ یہ سن کر آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ اونٹ مدینہ منورہ نہیں جائے گا۔ چنانچہ ان تینوں کو وہیں میدان احد میں دفن کیا گیا، مشرکوں کے ساتھ آنے والی عورتوں نے شہید ہونے والے مسلمانوں کا مثلہ کیا تھا یعنی ان کے ناک کان اور ہونٹ وغیرہ کاٹ ڈالے تھے، حضور اکرم کے چچا حضرت حمزہ ؓ کے ساتھ بھی انہوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ ہندہ (حضرت ابو سفیان کی اہلیہ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئی تھیں ۔ ) نے ان کا کلیجہ نکال کے چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی۔ لاشوں کو مثلہ کرنے کے بعد مشرک واپس لوٹے مسلمانوں نے بھی انہیں روکنے کی کوشش نہ کی کیونکہ سب کی حالت خستہ تھی، البتہ ایسے میں حضور نبی کریم نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:”دشمن کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو، وہ کیا کرتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں ؟ اگر وہ لوگ اونٹوں پر سوار ہیں اور گھوڑوں کو ہانکتے ہوئے لے جارہے ہیں تو سمجھو وہ مکہ جارہے ہیں ، لیکن اگر گھوڑوں پر سوار ہیں اور اونٹوں کو ہانک رہے ہیں تو سمجھو وہ مدینہ جارہے ہیں ، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر انہوں نے مدینہ کا رخ کیا تو میں ہر قیمت پر مدینہ پہنچ کر ان کا مقابلہ کروں گا۔ “حضرت علی ؓ ان کے پیچھے روانہ ہوئے، آخر معلوم ہوا کہ مشرکوں نے مکہ جانے کا ارادہ کرلیا ہے، اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کو اپنے مقتولین کی فکر ہوئی، حضور نبی کریم نے فرمایا:”کوئی سعد بن ربیع کا حال معلوم کرکے آئے میں نے ان کے اوپر تلوار چمکتی دیکھی تھیں ۔ “اس پر کچھ صحابہ کرام ان کا حال معلوم کرنے کے لیے جانے لگے، اس وقت حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:”اگر تم سعد بن ربیع کو زندہ پاؤ تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ رسول اللہ تم سے تمہارا حال پوچھتے ہیں ۔ “ایک انصاری مسلمان نے آخر حضرت سعد بن ربیع ؓ کو تلاش کر لیا، وہ زخموں سے چور چور تھے، تاہم ابھی جان باقی تھی۔