حضرت تمیم داری نے یہ قندیلیں مسجد میں لٹکادیں، پھر رات کے وقت ان کو جلادیا یہ دیکھ کر حضور نبی کریم نے فرمایا:
“ہماری مسجد روشن ہوگئی، اللہ تعالٰی تمہارے لیے بھی روشنی کا سامان فرمائے، اللہ کی قسم! اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی تم سے کردیتا”
بعض روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق نے مسجد میں قندیل جلائی تھی
حجرے کی تعمیر
مسجد نبوی کی تعمیر کے ساتھ آپ نے دو حجرے اپنی بیویوں کے لیے بنوائے تھے – (باقی حجرے ضرورت کے مطابق بعد میں بنائے گئے) – ان دو میں سے ایک سیدہ عائشہ صدیقہ کا تھا اور دوسرا سیدہ سودہ کا مدینہ منورہ میں وہ زمینیں جو کسی کی ملکیت نہیں تھیں، ان پر آپ نے مہاجرین کے لیے نشانات لگادئیے، یعنی یہ زمینیں ان میں تقسیم کر دیں – کچھ زمینیں آپ کو انصاری حضرات نے ہدیہ کی تھیں – آپ نے ان کو بھی تقسیم فرمادیا اور ان جگہوں پر ان مسلمانوں کو بسایا جو پہلے قبا میں ٹھہر گئے تھے، لیکن بعد میں جب انہوں نے دیکھا کہ قبا میں جگہ نہیں ہے تو وہ بھی مدینہ چلے آئے تھے
آپ نے اپنی بیویوں کے لیے جو حجرے بنوائے، وہ کچے تھے – کھجور کی شاخوں، پتوں اور چھال سے بنائے گئے تھے – ان پر مٹی لیپی گئی تھی
حضرت حسن بصری مشہور تابعی ہیں تابعی اسے کہتے ہیں جس نے کسی صحابی کو دیکھا ہو وہ کہتے ہیں کہ جب میں چھوٹا تھا تو حضرت عثمان غنی کی خلافت کے دور میں امہات المومنین کے حجروں میں جاتا تھا، ان کی چھتیں اس قدر نیچی تھیں کہ اس وقت اگرچہ میرا قد چھوٹا تھا، لیکن میں ہاتھ سے چھتوں کو چھو لیا کرتا تھا
حضرت حسن بصری اس وقت پیدا ہوئے تھے جب حضرت عمر کی خلافت کو ابھی دو سال باقی تھے – وہ نبی کریم کی زوجہ حضرت اُمّ سلمہ کی باندی خیرہ کے بیٹے تھے – حضرت اُمّ سلمہ انہیں صحابہ کرام کے پاس کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں – صحابہ کرام انہیں برکت کی دعائیں دیا کرتے تھے – حضرت ام سلمہ انہیں حضرت عمر فاروق کے پاس بھی لے گئی تھیں حضرت عمر نے انہیں ان الفاظ میں دعا دی تھی:
“اے اللہ! انہیں دین کی سمجھ عطا فرما اور لوگوں کے لیے یہ پسندیدہ ہوں “
مسجد نبوی کے چاروں طرف حضرت حارثہ بن نعمان کے مکانات تھے، آنحضرت نے اپنی حیات مبارکہ میں متعدد نکاح فرمائے تھے، جن میں دینی حکمتیں اور مصلحتیں تھیں، جب بھی آپ نکاح فرماتے تو حضرت حارثہ اپنا ایک مکان یعنی حجرہ آپ کو ہدیہ کردیتے – اس میں آپ کی زوجہ محترمہ کا قیام ہوجاتا – یہاں تک کہ رفتہ رفتہ حضرت حارثہ نے اپنے سارے مکان اسی طرح حضور کو ہدیہ کردیے
مہا جر ین اور انصا ر کے معا ہدے
اسی زمانے میں آنحضرت نے مہاجرین اور انصار مسلمانوں کے سامنے یہودیوں سے صلح کا معاہدہ کیا – اس معاہدے کی ایک تحریر بھی لکھوائی معاہدے میں طے پایا کہ یہودی مسلمانوں سے کبھی جنگ نہیں کریں گے، کبھی انہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے اور یہ کہ آنحضرت کے مقابلے میں وہ کسی کی مدد نہیں کریں گے اور اگر کوئی اچانک مسلمانوں پر حملہ کرے تو یہ یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے – ان شرائط کے مقابلے میں مسلمانوں کی طرف سے یہودیوں کی جان و مال اور ان کے مذہبی معاملات میں آزادی کی ضمانت دی گئی یہ معاہدہ جن یہودی قبائل سے کیا گیا، ان کے نام بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر ہیں
اس کے ساتھ ہی آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا – اس بھائی چارہ سے مسلمانوں کے درمیان محبت اور خلوص کا بے مثال رشتہ قائم ہوا – اس بھائی چارہ کو مواخات کہتے ہیں – بھائی چارہ کا یہ قیام حضرت انس بن مالک کے مکان پر ہوا – یہ بھائی چارہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد ہوا – اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا تھا:
“اللہ کے نام پر تم سب آپس میں دودو بھائی بن جاؤ”
بھا ئی چارہ
اس بھائی چارہ کے بعد انصاری مسلمانوں نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا – خود مہاجرین پر اس سلوک کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ پکار اٹھے:
“اے اللہ کے رسول! ہم نے ان جیسے لوگ کبھی نہیں دیکھے – انہوں نے ہمارے ساتھ اس قدر ہمدردی اور غم گساری کی ہے، اس قدر فیاضی کا معاملہ کیا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی… یہاں تک کہ محنت اور مشقت کے وقت وہ ہمیں الگ رکھتے ہیں اور صلہ ملنے کا وقت آتا ہے تو ہمیں اس میں برابر کا شریک کرلیتے ہیں… ہمیں تو ڈر ہے… بس آخرت کا سارا ثواب یہ تنہا نہ سمیٹ لے جائیں “
ان کی یہ بات سن کر حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
” نہیں! ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور انہیں دعائیں دیتے رہو گے”
بعض علماء نے لکھا ہے کہ بھائی چارہ کرانا حضور نبی کریم کی خصوصیت میں سے ہے – آپ سے پہلے کسی نبی نے اپنے امتیوں میں اس طرح بھائی چارہ نہیں کرایا
اس سلسلہ میں روایت ملتی ہے کہ انصاری مسلمانوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اپنی ہر چیز میں سے نصف حصہ دے دیا – کسی کے پاس دو مکان تھے تو ایک اپنے بھائی کو دے دیا – اسی طرح ہر چیز کا نصف اپنے بھائی کو دے دیا – یہاں تک کہ ایک انصاری کی دو بیویاں تھیں انھوں نے اپنے مہاجِر بھائی سے کہا کہ میری دو بیویاں ہیں میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں – عِدّت پوری ہونے کے بعد تم اس سے شادی کرلینا – لیکن مہاجِر مسلمان نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا
ان کاموں سے فارِغ ہونے کے بعد یہ مسئلہ سامنے آیا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے بلایا کریں