آپ ﷺنے ان سے وعدہ فر ما یا کہ آپﷺ رات کت کسی وقت حجو ن ائیں گے ۔ حجو ن مکہ میں ایک قبرستا ن کا نا م تھا ۔ را ت کے وقت آپ ﷺ وہاں پہنچے ۔ حضر ت دعبداللہ بن مسعود ؑ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ حجو ن پہنچ کر آُ ﷺ نے حضر ت عبداللہ بن مسعودؑ کے گرد ایک خط کھینچ دیا اور فر ما یا :
اس سے با ہر مت نکلنا ۔ اگر تم نے دا ئرے سے با ہر قد م رکھ دیا تو قیا مت کے دن تک تم مجھے نہیں دیکھ پا ؤ گے اور نا میں تمہیں دیکھ سکو ں گا ۔
ایک روا یت کے مطا بق آپﷺ نے ان سے یہ فر ما یا ؛
میر ے آنے تک تم ایسی جگہ رہو ۔ تمہیں کسی چیز سے ڈر نہی لگے گا ،نہ کسہ چیز کو دیکھ کر حو ل محسو س ہو گا ۔
اس کے بعد آپ ﷺ کچھ فا صلے پر جا کر بیٹھ گئے ۔اچا نک آپ ﷺ کے پا س با لکل سیا ہ فا م لو گ آئے ۔ یہ کا فی تعدا د میں تھے اور آپﷺ پر ہجو م کر کے ٹو ٹے پڑ رہے تھے ، یعنی قر آن پا ک سننے کی خو اہش میں ایک دوسرے پر گر رہے تھے ۔ اس مو قع پر حضر ت عبد اللہ بن مسعو د نے چا ہا کے آگے بڑ ھ کر ان لو گو ں کو آپ ﷺ کے پا س سے ہٹا دیں ،لیکن پھر انہیں آپ ﷺ کا رشا د یا د آگیا ۔اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے ۔ ادھر جنا ت نے آپ ﷺ سے کہا :
اے اللہ کے رسو ل ﷺ ہم جس جگہ کے رہنے والے ہیں یعنی جہا ں ہمیں جا نا ہے وہ جگہ دو ر ہے اس لئے ہما رے اور ہما ری سو اریو ں کے لئے سا ما ن سفر کا انتظا م فر ما دیجیے ۔
جو اب میں آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا :
ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نا م لیا گیا ہو ، جب ےمہا رے ہا تھو ں میں پہنچے گی تو پہلے سے زیا دہ پر گو شت ہو جا ئے گی اور یہ لید اور گو بر تمہا رے جا نورو ں کا چا رہ ہے ۔
اس طرح جنا ت آپ ﷺ پر ایما ن لا ئے ۔
طفیل بن عمر و دوسی کا قبو ل اسلا م
طفیل بن عمر و دوسی ایک اونچے درجے کے سا عر تھے ۔ یہ ایک مر تبہ مکہ آئے ۔ ان کی آمد کی خبر سن کر قر یش ان کے گرد جمع ہو گئے ۔انہو ں نے طفیل بن عمر و دوسی ؑ سے کہا :
آپ ہما رے در میان ایسے وقت میں آئیے ہیں جب کہ ہما رے درمیا ن اس شخص اپنا معاملہ بہت پچیدہ بنا دیا ہے ۔ اس نے ہما را شیرا زہ بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ ہم میں پھو ٹ ڈا ل دی ہے ۔ اس کی با تو ں میں جا دو جیسا اثر ہے ، اس نے دو سگت بھا ئیو ں میں پھو ٹ ڈا ل دی ہے ۔ اب ہمیں آپ کی اور آپ کی قوم کی طرف سے بھی پر یشا نی لا حق ہو گئی ہے ، اس لئے اب آپ نہ تو اس سے کو ئی با ت کر یں اور نہ اس کی کو ئی با ت سنیں ۔
انہو ں نے ان پر اتنا دبا ؤ ڈالا کہ وہ یہ کہنے پر مجبو ر ہو گئے ۔
نہ میں محمد کی کو ئی با ت سنو ں گ اور نہ ان سے کو ئی با ت کر وں گا ۔
دوسرے دن طفیل بن عمر ومسعو د ؑ کعبہ کو طوا ف کر نے کئے لئے گئے تو انہو ں نے اپنے کا نو ں میں کپڑ ا ٹھو س لیا کہ کہیں ان کی کو ئی با ت ان کے کا نو ں میں نہ پہنچ جا ئے ۔ آپ ﷺ اس وقت کعبہ میں نما ز پڑ ھ رہے تھے ۔ یہ آپ ﷺ کے قر یب ہی کھر ے ہو گئے ۔ اللہ کو یہ منظو ر تھا کہ آپ ﷺ کا کچھ کلا م ان کے کا نو ں میں پڑ ھ جا ئے چنا نچہ انہو ں نے ایک نہا یت پا کیزہ اور خو ب صو رت کلا م سنا ۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگے ۔ میں اچھے اور بر ے میں تمیز کر سکتا ہو ں ۔ اس لئے ان صا حب کی با ت سننے میں حر ج کیا ہے ۔ اگر یہ اچھی با ت کہتے ہیں تو میں قبو ل کر لو ں گا اور بر ی با ت ہو ئی تو چھو ڑ دو ن گا ۔
کچھ دیر بعد آپ ﷺ نما ز پڑ ھ کر فا رغ ہو کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہو ں نے کہا :
اے محمد ! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے ،اسی لئے میں آپ کی با تو ں سے بچنے کے لئے اپنے کا نو ں میں کپڑا ٹھو س لیا تھا ، مگر آپ اپنی با ت میر ے سا منے پیش کر یں ۔
یہ سن کر آپ ﷺ نے ان پر سلا م پیش کیا اور ان کے سا منے قرآن کر یم کی تلا وت فر ما ئی قرآن سن کر طفیل بن عمر و دوسی ؑ بول آٹھے ۔
اللہ کی قسم میں نے اس اچھا کل ام کبھی نہیں سنا ۔
اس کے بعس انہو ں نے کلمہ پڑ ھا اور مسلمان ہو گئے ۔ پھر انہو ں نے عر ض کیا :
اے اللہ کے نبی ﷺ میں اپنی قو م میں اونچی حیثیت کا ما لک ہو ں ،وہ سب می ری با ت سنتے ہیں اور ما نتےہیں میں واپس جا کر اپنی قوم کو سلا م کی دعوت دو ں گا ۔اس لئے آپﷺ میر ے لئے دعا فر ما ئیں ۔
اس پر آپﷺ نے ان کے لئے دعا فر ما ئی