You are currently viewing سیرت النبی،رسول اللہ کی جنات سے ملاقات

سیرت النبی،رسول اللہ کی جنات سے ملاقات

آپ ﷺنے ان سے وعدہ فر ما یا کہ آپﷺ رات کت کسی وقت حجو ن ائیں گے ۔ حجو ن مکہ میں ایک قبرستا ن کا نا م تھا ۔ را ت کے وقت آپ ﷺ وہاں پہنچے ۔ حضر ت دعبداللہ بن مسعود ؑ آپ ﷺ کے ساتھ تھے۔ حجو ن پہنچ کر آُ ﷺ نے حضر ت عبداللہ بن مسعودؑ  کے گرد ایک خط کھینچ دیا اور فر ما یا :

اس سے با ہر مت نکلنا ۔ اگر تم نے دا ئرے سے با ہر قد م رکھ دیا تو قیا مت کے دن تک تم مجھے نہیں دیکھ پا ؤ گے اور نا میں تمہیں دیکھ سکو ں گا ۔

ایک روا یت کے مطا بق آپﷺ نے ان سے یہ فر ما یا ؛

میر ے آنے تک تم ایسی جگہ رہو ۔ تمہیں کسی چیز سے ڈر نہی لگے گا ،نہ کسہ چیز کو دیکھ کر حو ل محسو س ہو گا ۔

اس کے بعد آپ ﷺ کچھ فا صلے پر جا کر بیٹھ گئے ۔اچا نک آپ ﷺ کے پا س با لکل سیا ہ فا م لو گ آئے ۔ یہ کا فی تعدا د میں تھے اور آپﷺ پر ہجو م کر کے ٹو ٹے پڑ رہے تھے ، یعنی قر آن پا ک سننے کی خو اہش میں ایک دوسرے پر گر رہے تھے ۔ اس مو قع پر حضر ت عبد اللہ بن مسعو د نے چا ہا کے آگے بڑ ھ کر ان لو گو ں کو آپ ﷺ  کے پا س سے ہٹا دیں ،لیکن پھر انہیں آپ ﷺ کا رشا د یا د آگیا ۔اور وہ اپنی جگہ سے نہ ہلے ۔ ادھر جنا ت نے آپ ﷺ سے کہا :

اے اللہ کے رسو ل ﷺ ہم جس جگہ کے رہنے والے ہیں یعنی جہا ں ہمیں جا نا ہے وہ جگہ دو ر ہے اس لئے ہما رے اور ہما ری سو اریو ں کے لئے سا ما ن سفر کا انتظا م فر ما دیجیے ۔

جو اب میں آپ ﷺ نے ارشا د فر ما یا :

ہر وہ  ہڈی جس پر اللہ کا نا م لیا گیا ہو ، جب ےمہا رے ہا تھو ں میں پہنچے گی تو پہلے سے زیا دہ پر گو شت ہو جا ئے گی اور یہ لید اور گو بر تمہا رے جا نورو ں کا چا رہ ہے ۔

اس طرح جنا ت آپ ﷺ پر ایما ن لا ئے ۔

طفیل بن عمر و دوسی ایک اونچے درجے کے سا عر تھے  ۔ یہ ایک مر تبہ مکہ آئے ۔ ان کی آمد کی خبر سن کر قر یش ان کے گرد جمع ہو گئے ۔انہو ں نے طفیل بن عمر و دوسی ؑ سے کہا :

آپ ہما رے در میان ایسے وقت میں آئیے ہیں جب کہ ہما رے درمیا ن اس شخص اپنا معاملہ بہت پچیدہ بنا دیا ہے ۔ اس نے ہما را شیرا زہ بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ ہم میں پھو ٹ ڈا ل دی ہے ۔ اس کی با تو ں میں جا دو جیسا اثر ہے ، اس نے دو سگت بھا ئیو ں میں پھو ٹ ڈا ل دی ہے ۔ اب ہمیں آپ کی اور آپ کی قوم کی طرف سے بھی پر یشا نی لا حق ہو گئی ہے ، اس لئے اب آپ نہ تو اس سے کو ئی با ت کر یں اور نہ اس کی کو ئی با ت سنیں ۔

انہو ں نے ان پر اتنا دبا ؤ ڈالا کہ وہ یہ کہنے پر مجبو ر ہو گئے ۔

نہ میں محمد کی کو ئی با ت سنو ں گ اور نہ ان سے کو ئی با ت کر وں گا ۔

دوسرے  دن طفیل بن عمر ومسعو د ؑ کعبہ کو طوا ف کر نے کئے لئے گئے تو انہو ں نے اپنے کا نو ں میں کپڑ ا ٹھو س لیا کہ کہیں ان کی کو ئی با ت ان کے کا نو ں میں نہ پہنچ جا ئے ۔ آپ ﷺ اس وقت کعبہ میں نما ز پڑ ھ رہے تھے ۔ یہ آپ ﷺ کے قر یب ہی کھر ے ہو گئے ۔ اللہ کو یہ منظو ر تھا کہ آپ ﷺ کا کچھ کلا م ان کے کا نو ں میں پڑ ھ جا ئے چنا نچہ انہو ں نے ایک نہا یت   پا کیزہ اور خو ب صو رت کلا م سنا ۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگے ۔ میں اچھے اور بر ے میں تمیز کر سکتا ہو ں ۔ اس لئے ان صا حب کی با ت سننے میں حر ج کیا ہے ۔ اگر یہ اچھی با ت کہتے ہیں تو میں قبو ل کر لو ں گا اور بر ی با ت ہو ئی تو چھو ڑ دو ن گا ۔

کچھ دیر بعد آپ ﷺ نما ز پڑ ھ کر فا رغ ہو  کر اپنے گھر کی طرف چلے تو انہو ں نے کہا :

اے محمد ! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے ،اسی لئے میں آپ کی با تو ں سے بچنے کے لئے اپنے کا نو ں میں کپڑا ٹھو س لیا تھا ، مگر آپ اپنی با ت میر ے سا منے پیش کر یں ۔

یہ سن کر آپ ﷺ نے ان پر سلا م پیش کیا اور ان کے سا منے قرآن کر یم کی تلا وت فر ما ئی  قرآن سن کر طفیل بن عمر و دوسی ؑ بول آٹھے ۔

اللہ کی قسم میں نے اس اچھا کل ام کبھی نہیں سنا ۔

اس کے بعس انہو ں نے کلمہ پڑ ھا اور مسلمان ہو گئے ۔ پھر انہو ں نے عر ض کیا :

اے اللہ کے نبی ﷺ میں اپنی قو م میں اونچی حیثیت کا ما لک ہو ں ،وہ سب می ری با ت سنتے ہیں اور ما نتےہیں میں واپس جا کر اپنی قوم کو سلا م کی دعوت دو ں گا ۔اس لئے آپﷺ میر ے لئے دعا فر ما ئیں ۔

اس پر آپﷺ نے ان کے لئے دعا فر ما ئی