روزے کے فدیے کی مقدار
جن صورتوں میں روزے کے بہ جا ئے فدیہ دے دینا جا ئز ہے ان میں علما نے تصریح کی ہے کہ ایک روزہ کا فدیہ ایک فطر کے برا بر ہے ۔
لہذا مو جو د حسا ب کی رو سے اگر کو ئی روزے کا فدیہ دینا چا ہیے تو صد قہ فطر کی جو مقدا ر اوپر لکھی ہے وہی دینا ہو گا یعنی ایک روزے کے بد لے پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت یا سا ڑھے تین کلو جو یا کھجور یا اس کی قیمت دینا ہو گا اور یہ احتیا ط ہے ورنہ ایک کلو 636 گرام گیہوں یا اس کی قیمت یا تین کلو 272 گرام جو یا کھجور یا اتنی قیمت دے دینا کا فی ہے ۔
صدقہ فطر سیدوں کا دینا
صدقہ فطر صرف ان لو گو ں کو دینا جا ئزہے جن کو زکا ت دی جا سکتی ہے اور جن کو زکا ت دینا جا ئز نہیں ان کو صدقہ فطر دینا نھی جا ئز نہیں اور یہ معلوم ہے کہ سید ہا شمی کو زکا ت دینا جا ئز نہیںاس لیے صدقہ فطر بھی ان کو نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ علامہ شا می نے اس کی تصریح کی ہے ۔
اگر مو جو دہ دور میں جب کہ محتا ج سیدوں کو اس کے سوا چا رہ نہیں رہا کہ وہ زکا ت وصدقات و صول کر کے اپنا گزا رہ کر یں کیا اس حکم میں کسی تر میم کی گنجا ئش ہے ؟
اس سلسلے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمت اللہ سے مروی ہے کہ جا ئز ہے علا مہ شا می رحمت اللہ فرما تے ہیں :
تر جمہ :ابو عصمہ نے بیا ن کیا ہے کہ اما م ابو حنیفہ رحمت اللہ نے اپنے زما نے میں ہا شمی کو زکا ۃ دینا جا ئز قرا ر دیا ہے کیو نکہ زکا ۃ کا عو ض یعنی غنیمت میں اور اس کو مستحقین تک پہنچا نے میں ڈھیل برت رہے ہیں جب ان کو عو ض نہ پہنچا تو مضو ض یعنی زکا ت ملنا چا ہیے ۔
حضرت مو لا نا عبد الوہا ب صا حب رحمت اللہ با نی با قیا ت الصلا لحات ویلور کر کہا ہے کہ ہم اسی کو اختیا ر کرتے ہیں ۔
مگر ہما رے علما نے تصریح کہ یہ قول معمول بہ نہیں ہے مفتٰی بہ معمول بہ یہی ہے کہ سید کو زکا ت و صدقا ت وا جبہ دینا جا ئز نہیں ہی ظا ہر الرویہ ہے ۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ سیدوں کو اس سے احترام کا حکم اس لیے ہے زکا ۃ وصدقا ت واجبہ لو گو ں کا میل کچیل ہے اللہ نے اس سے بچا ئے رکھنا چا ہتا ہے حدیث میں کہ رسول ﷺ نے فرما یا :
ائے نبی ہا شم اپنے آپ کو روکے رکھو کیونکہ صدقا ت لو گو ں کا غسا لہ و میل کچیل ہے ۔
اور یہ واجہ حرمت ہر زما نے میں مو جو د ہے اس لیے سیدوں کو زکا ت وفطرہ نہ دینا چاہیے اور ان سےلینا بھی نہیں چاہیے اور حسن الخمس کو جو زکا ۃ وصدقات کا عو ض بتا یا گیا ہے جیسے اما م ابو حنیفہ رحمت اللہ سے اوپر منقو ل ہو ا اس سے بھی یہ ثا بت نہیں ہو تا کہ اب مو جو دہ حا لا ت میں ان کو زکا ۃدینا درست ہے کیوں کہ اس سے صر ف یہ ثا بت ہوا ہے کہ زکا ۃ و صدقا ت سے ان کو محروم کر کے ان کے لیے دوسرا را ستہ کھولا گیا ہے یہ را ستا بند ہو گیا ہے تو اس کا دو سرا طریقہ ڈھونڈ ھنا چا ہیے یہ نہیں کہ جس چیز سے ان کو بچا رکھنے ہی کے لیے ان کو خمس الخمس دینا چا ہیے اور نہ ان کو لینا چا ہیے اگر قرا بت رسول ﷺ کا احسا س ہے تو دینے وا لوں کو چا ہیے کہ دو سرے اچھے ما ل سے ان کی خدمت کر کے ما جو ر ہو ں ۔
اس مسئلے کے تعلق سے حضرت والا نے حسب روایت نہا یت محقق و مد لل اور بہت متوا زن و معتد ل تحریر حا ل ہی میں سپر د قر طا س فرما ئی ہے تحقیق پسند احبا ب کی خدمت میں یہ مکمل تحریردرج ذیل کی جا تی ہے ۔
مو جو دہ دور میں لو گ عام طو ر پر غیر زکا ۃسے خرچ کرنے کے عادی نہیں ہیں زیا دہ سے زیا دہ صرف زکا ۃ نکا لتے ہیں ان حلا ت میں سوائے زکا ۃ کے کسی اور مدر سے سیدوں کو دینے والا کو ئی نہیں اگر یہ کہا دیا جا ئے سیدوں کو زکا ۃ دینا جا ئز نہیں تو غربت سیدو کے گزارے مسئلہ بہت پر یشا ن کن ہو گا کیا ان حلا ت میں سیدوں کو زکا ۃ دینے کی کو ئی گنجا ئش نکل سکتی ہے ؟اور کیا یہ مسئلہ متفقہ ہے ؟
سیدوں یعنی نبی ہا شم کا زکا ت دینے کی حرمت منصوص ہے کیونکہ احا دیث میں صراحت کے سا تھ اس سے منع کیا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرما یا :
ترجمہ :یہ صدقہ تو بس لو گو ں کا میل ہے اور محمد وآل محمد کے لیے حلال نہیں ہے لہذا منصو ص کے مقا بلے میں کو ئی اجتہا د وراے معتبر نہیں ہو تی پھر اس پر امت کا اجما ع بھی ہو چکا ہے علا مہ ابن قدامہ الحنبی رحمت اللہ لکھتے ہیں :
تر جمہ :نبی ہا شم کو زکا ۃ جا ئز ہو نے کے مسلے میں کسی اختلا ف کا علم نہیں ہے ۔
علا مہ نو ری شا فعی رحمت اللہ نے بھی لکھا ہے کہ ان کے علا وہ علا مہ عبد الرحمٰن ابن قدا مہ رحمت اللہ نے سیدوں پر زکا ت کی حرمت پر اجما ع نقل کیا ہے اس سے معلو م ہو ہے کہ اس مسئلے میں تما م ائمہ کا اتفا ق ہے ۔
رہا یہ مسئلہ کہ سیدوں کے گذ ر معا ش کا مسئلہ کیسے حل ہو ؟تو یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ پہلے ادوار میں بھی زیر بحث آ چکا ہے اور خو د اما م ابو حنیفہ رحمت اللہ کی روایت اس کا پتہ دیتی ہے کہ اس دور مین بھی سیدوں کے سلسلے میں یہ مسئلہ زیر غو ر ہےامام صا حب کی ایک روایت تو اس با رے میں یہی ہے کہ اب سیدوں کو زکا ۃ دینا جا ئز ہے اور اس کی وجہ انھوں نے یہ بیا ن کی ہے کہ پہلے سیدوں کو ما ل غنیمت میں سے خمس یعنی پا نچواں حصہ دیا جا تا تھا اور یہ بطو ر حق قرا بت رسول ان کو ملتا تھا مگر جب لو گو ں نے ما لے غنیمت کے سلسلے میں کو تا ہی کہ اور سیدوں کو ان کا حصہ دینے سے پہلو تہی کی تو ان کو زکا ۃ کی مد سے دینا جا ئز ہے ۔