بت پر ستی سے انکا ر
اسی طرح کاایک واقعہ جوکہ اُن دنوں بہت مشہورہواتھا،وہ یہ کہ مدینہ میں ’’بنوسَلَمَہ‘‘ کے نام سے ایک مشہورومعروف خاندانا تھا(مسجدِقبلتین جس جگہ واقع ہے وہیں یہ خاندان آباد تھا) عمروبن الجموح نامی شخص اس معززخاندان کاسربراہ تھا،جوکہ کافی صاحبِ حیثیت انسان تھا،اس نے عبادت کی غرض سے اپناایک خاص بت بنارکھاتھاجوکہ کافی قیمتی اورنفیس قسم کی لکڑی کابناہواتھا جس کی وہ بہت زیادہ دیکھ بھال کیاکرتاتھا،ریشمی غلاف اسے پہنارکھا تھا، اورصبح وشام اسے خوب عمدہ خوشبؤوں کی دھونی دیاکرتاتھا۔ ایک روزحضرت معاذبن جبل اوران کے ساتھی نوجوانوں نے رات کے وقت موقع پاکراس بت کواس کی جگہ سے اٹھالیا اورپھراسے لے جاکرایسی جگہ پھینک دیاجہاں اس خاندان کے لوگ کوڑااورگندگی وغیرہ پھینکاکرتے تھے۔ اس سردارنے جب دیکھاکہ میرابت گھرمیں اپنی جگہ سے غائب ہے تووہ انتہائی پریشان ہوگیا،اوراس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا،آخرتلاش کرتے کرتے اسے اپنابت کوڑے کے ڈھیرپراوندھے منہ پڑاہواملا تب اسے بہت زیادہ افسوس ہوا،اوراس بت کے ساتھ ایساسلوک کرنے والے پراسے بہت زیادہ غصہ بھی آیا،لہٰذاوہ بت کی طرف دیکھتے ہوئے یوں کہنے لگا’’جس کسی نے میرے اس خداکے ساتھ یہ سلوک کیاہے وہ بربادہوجائے‘‘ اورپھراسے وہاں سے اٹھاکروہ واپس اپنے گھرلایا،نہلادھلاکرصاف ستھرے نئے ریشمی کپڑے پہنائے ،خوب عمدہ خوشبوبھی لگائی اورنہایت احترام کے ساتھ اسے اس کی مخصوص جگہ پرسجاکررکھدیا،اورپھرخوب گڑگڑاکراس سے معذرت کرتے ہوئے اورمعافی مانگتے ہوئے یوں کہنے لگا’’کاش اگرمجھے معلوم ہوجائے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے تومیں اس کابراحال کرڈالوں ‘
‘دانشمندانہ کا رنا مہ
اس کے بعدجب دوسرادن گذرااوررات کااندھیراپھیل گیا تب حضرت معاذبن جبل کی زیرِقیادت نوعمرلڑکوں کاوہی گروہ پھراُسی طرح چھپتاچھپاتاعمروبن الجموح کے گھرجاپہنچا،جہاں سے انہوں نے اس بت کواٹھایا،اوراس بارکوڑے کیلئے مخصوص ایک دوسری جگہ پرلے جاکراسے پھینک دیا صبح جب بوڑھاسردارنیندسے بیدارہواتواسے پھروہی کیفیت نظرآئی ،یعنی اس کاخدا گھر سے غائب تھا لہٰذاآج پھروہ اس کی تلاش میں نکل کھڑاہوا،پہلے توسیدھااسی جگہ پہنچا جہاں اسے کل یہ بت پڑا ہوا ملا تھا،لیکن آج وہاں اسے مایوسی ہوئی ،لہٰذا مسلسل تلاش کے بعدآخردوسرے ایک مقام پراسے وہ غلاظت کے ڈھیر پر پڑا ہوا ملا،کل سے بھی زیادہ بری حالت میں تب وہ حسبِ سابق اسے لئے ہوئے واپس اپنے گھرپہنچا،جہاں پہلے تواس نے اسے نہلا دھلاکرصاف ستھراکیا،ریشمی لباس پہنایا،خوب عمدہ خوشبو لگائی لیکن اتنا کرنے کے بعدآج اس سے معافی مانگنے کی بجائے اس نے یہ کیاکہ اپنی تلواراس کی گردن میں لٹکادی ، اوراسے مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ یہ حرکت کون کرتا ہے؟ لہٰذااگرتم کسی قابل ہو توآئندہ اپنی حفاظت خودکرلینا اس لئے میں نے اپنی یہ تلوارتمہارے حوالے کردی ہے‘‘اس کے بعدجب رات ہوئی تویہی نو عمر لڑکے پھروہاں پہنچ گئے،بوڑھے سردار کو دیکھا کہ خوب گہری نیند سو رہا ہے،تب وہ سیدھے اس بت کے قریب پہنچے ،اس کے گلے میں لٹکی ہوئی تلوار اتاری ، اور پھر اسے ہمراہ لئے ہوئے روانہ ہوگئے حسبِ سابق کوڑے کے ایک ڈھیرکے قریب جب پہنچے تواتفاقاًانہیں وہاں ایک مراہواکتانظرآیا،تب انہوں نے رسی کے ذریعے اس بت کواُس مردہ کتے کے ساتھ باندھ دیا،یعنی اب یہ بت اورمردہ کتا دونوں ساتھی ہوگئے ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے جب صبح کاسورج طلوع ہوا،بوڑھاسرداراپنے بت کی تلاش میں نکلا حسبِ سابق اس باربھی اسے اپنابت کوڑے کے ڈھیرپرہی ملا،البتہ اس بارمزیدافسوسناک منظراس نے یہ دیکھاکہ اس کابت اورکتادونوں ایک ساتھ رسی میں بندھے ہوئے اوندھے منہ پڑے ہیں اورکیفیت یہ ہے کہ بت کامنہ مردہ کتے کے جسم کو چھورہاہے بوڑھے سردارنے جب یہ حال دیکھاتواپنے بت کومخاطب کرتے ہوئے بڑی ہی حسرت کے ساتھ یوں کہنے لگا’’آہ اگر تُو واقعی خدا ہوتا تو آج تُو اور یہ مردار کتا دونوں گندگی کے اس ڈھیر پر یوں ایک ساتھ نہ پڑے ہوتے‘‘چنانچہ اپنے بت کی اس قدربے چارگی وبے بسی دیکھنے کے بعداب اسے شدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگاکہ ’’جوخوداپنے لئے خیراورشرکامالک نہیں وہ کسی اورکے کس کام آئیگا؟‘‘ اورپھربالآخرعمروبن الجموح نامی اس سردارنے دینِ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں جن سے متأثرہونے کے بعداب دینِ برحق قبول کرلیا
،حضرت عمروبن الجموح
یوں مدینہ میں جہاں مسجدِقبلتین موجودہے ،اس مقام پر آباد مشہور خاندان بنوسَلَمَہ کے یہ سرداراب رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عمروبن الجموح’’حضرت عمروبن الجموح ‘‘بن گئے۔اوران کے اس قبولِ اسلام کے پیچھے توفیقِ الٰہی کے بعد حضرت معاذبن جبل اوران کے نوعمرساتھیوں کی گذشتہ سطور میں بیان کی گئی کوشش ہی کاعمل دخل تھا۔ شب وروزکایہ سفرجاری رہا آخررسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرماکرمکہ سے مدینہ تشریف لائے ،تب نوجوان معاذبن جبل کی کیفیت یہ رہنے لگی کہ ہمہ وقت سائے کی مانند آپؐ کی صحبت ومعیت میں رہتے،بالخصوص یہ کہ فطری طورپرہی چونکہ استعداد وصلاحیت اورذہانت وفطانت میں ان کی ممتازحیثیت تھی لہٰذاآپؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے اب یہ ہمہ وقت تحصیلِ علمِ دین اورکسبِ فیض میں مشغول ومنہمک رہنے لگے رسول اللہ ﷺ بھی نوجوان معاذبن جبلؓ کی علمی استعداد ذہنی صلاحیت نیزشوق وجستجو کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ ان کے ساتھ نہایت ہی شفقت وعنایت کامعاملہ فرماتے تھے،بالخصوص یہ کہ آپؐ نے متعددمواقع پرانہیں انتہائی کارآمد اور مفید و نافع قسم کی وصیتیں اورنصیحتیں بھی فرمائیں ۔مثلاًایک باررسول اللہ ﷺ نے نہایت ہی شفقت کے ساتھ ان کاہاتھ تھامتے ہوئے ارشادفرمایا:’’اے معاذ!اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتاہوں ‘‘ اس کے بعدفرمایا :’’اے معاذ!میں تمہیں یہ وصیت کرتاہوں کہ تم ہرنمازکے بعدیہ کلمات کہنا کبھی ترک نہ کرنا اے اللہ!تومیری مدد فرما اپنے ذکر اپنے شکر اوراچھے طریقے سے اپنی عبادت کرنے پر) یعنی: ’’اے اللہ تومیری مددفرماتاکہ میں تیراذکرکرتارہوں تیرا شکرگذاربنارہوں اورخوب اچھی طرح تیری عبادت کیاکروں ‘‘۔رسول اللہ ﷺ کااس طرح معاذبن جبل کاہاتھ تھامنا،اوریوں شفقت ومودّت کااظہار حالانکہ آپ ﷺ کو تواللہ عزوجل کی جانب سے انتہائی اعلیٰ وارفع مقام ومرتبے سے نوازاگیا،آپؐ توخیرالبشر ٗسیدالأولین والآخرین اورافضل الأنبیاء والمرسلین تھے اس کے باوجودآپؐ کااپنے ایک امتی کے ساتھ یہ اندازِگفتگو یقینایہ آپؐ کے بلنداخلاق کا نیزآپؐ کے قلبِ مبارک میں اپنی امت کیلئے خیرخواہی اور شفقت ورحمت کے جذبات کا ایک مظہرتھا مزیدیہ کہ اس سے اس قدرومنزلت کااظہارہوتاہے جو آپؐ کے قلبِ مبارک میں حضرت معاذبن جبلؓ کیلئے تھی۔