’’کاتبینِ وحی‘‘
حضرت معاذبن جبل کواللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے جوبے مثال علمی استعداداورصلاحیت وقابلیت عطاء کی گئی تھی ٗنیز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کا جووالہانہ تعلقِ خاطرتھااورآپؐ کی مجلس میں مسلسل حاضری اورکسبِ فیض کاجوسلسلہ تھا اسی کایہ نتیجہ تھاکہ علم ومعرفت کے میدان میں انہیں نہایت بلندترین مقام ومرتبہ نصیب ہوا،حتیٰ کہ ایک بارخودرسول اللہ ﷺ نے یہ ارشادفرمایا: أعلَمُھُم بِالحَلَالِ وَالحَرَامِ مُعَاذُ بن جَبَل ۔ یعنی ’’میری امت میں حلال وحرام کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذبن جبل ہیں ‘‘ حضرت معاذبن جبل کویہ شرف بھی حاصل تھاکہ یہ اُن چندگنے چنے افرادمیں سے تھے جن سے رسول اللہ ﷺ وحی لکھوایاکرتے تھے،یعنی ’’کاتبینِ وحی‘‘میں سے تھے، جس سے یقینایہ بات واضح وثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک یہ انتہائی قابلِ اعتمادتھے،لہٰذایہی وجہ تھی کہ آپؐ کے صحابۂ کرام کی برگزیدہ جماعت میں اور اس تمام معاشرے میں حضرت معاذبن جبل کی خاص حیثیت تھی اورانہیں بڑی ہی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔
اولین معلم ومربی
حضرت معاذبن جبل کے اسی علمی مقام ومرتبے کومدِنظررکھتے ہوئے خودرسول اللہ ﷺ ٗاورپھرآپؐ کے بعدخلفائے راشدین بھی علمی معاملات میں ہمیشہ ان کی خدمات حاصل کرتے رہے۔ چنانچہ ماہِ رمضان ۸ھمیں فتحِ مکہ کے یادگارواقعے کے نتیجے میں جب قریش مکہ بہت بڑی تعدادمیں فوج درفوج دینِ اسلام قبول کرنے لگے،تب اس صورتِ حال کے پیشِ نظر آپؐ نے بڑی شدت کے ساتھ اس بات کومحسوس فرمایاکہ اتنی بڑی تعدادمیں ان نومسلموں کی دینی واخلاقی تعلیم وتربیت کیلئے کوئی انتظام بہت ضروری ہے۔ چنانچہ اس مقصدکیلئے آپؐ نے حضرت معاذبن جبل کوفتحِ مکہ کے بعدوہاں اولین معلم ومربی کی حیثیت سے مقررفرمایا
دینی تبلیغ کے لئے یمن روانہ
،چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی اپنے لشکرسمیت مکہ سے مدینہ کی جانب واپسی کے بعدبھی کافی عرصے تک یہ وہاں مکہ میں تعلیم وتربیت کے میدان میں گراں قدرخدمات انجام دیتے رہے۔ اسی طرح جب ملکِ یمن کے بہت سے علاقے فتح ہوچکے جس کے نتیجے میں نہایت سرعت کے ساتھ وہاں دینِ اسلام کی نشرواشاعت ہونے لگی تب وہاں بڑی تعدادمیں ان نومسلموں کی طرف سے بکثرت اس قسم کے پیغام موصول ہونے لگے جن میں ان کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں یہ گذارش کی گئی تھی کہ’’ ہماری دینی واخلاقی تعلیم وتربیت کی غرض سے چندمناسب افراد کوہماری طرف روانہ کیاجائے ‘‘اس موقع پربھی آپؐ نے اپنے جلیل القدرصحابۂ کرام میں سے چندحضرات کواس کام کیلئے منتخب فرمایا،اوران سب کاسربراہ حضرت معاذبن جبل کو مقرر فرمایا۔ اورجب ان حضرات کی روانگی کاوقت آیا،تب رسول اللہ ﷺ بذاتِ خودانہیں رخصت کرنے کی غرض سے کچھ دورتک ان کے ہمراہ چلتے رہے،اس موقع پرآپؐ کی کیفیت یہ تھی کہ آپؐ حضرت معاذبن جبل کی سواری کے ہمراہ پیدل چل رہے تھے،جبکہ حضرت معاذؓ سوارتھے یہاں تک کہ اسی کیفیت میں چلتے چلتے کافی دورنکل آئے اور پھرایک جگہ پہنچ کرآپؐ رک گئے، اورحضرت معاذؓ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے استفسار فرمایا : بِمَ تَقْضِي بَینَھُم یَا مُعَاذ؟ یعنی’’اے معاذ!تم اُن(یمن والوں )کے درمیان کس چیزکے مطابق فیصلے کیا کروگے؟‘‘ عرض کیا’’اللہ کی کتاب کے مطابق‘‘آپؐ نے دریافت فرمایا’’اگرتمہیں وہ مسئلہ اللہ کی کتاب میں نہیں ملا، تب کیاکروگے؟‘‘عرض کیا’’تب اللہ کے رسولؐ کی سنت کے مطابق ‘‘آپؐ نے دریافت فرمایا ’’اگراللہ کے رسولؐ کی سنت میں بھی نہیں ملا،تب کیاکروگے؟‘‘عرض کیا’’تب میں اجتہادکروں گا‘‘ اس پرآپؐ نے نہایت مسرت کااظہارکرتے ہوئے یہ ارشادفرمایا: ’’اللہ کاشکرہے کہ اس نے اپنے رسول کے قاصد کو توفیق عطا فرمائی‘‘(یعنی اسے درست بات سُجھائی )
اللہ کے رسول کی اطلاع
اورپھررسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس مسرت واطمینان کے اظہار کے فوری بعدہی ان الوداعی لمحات میں کچھ ایسی گفتگوہوئی جس کی وجہ سے اب مسرت کی بجائے کچھ صدمے اور رنج وغم کاماحول بن گیا ہوایہ کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذبن جبل کو رخصت کرتے ہوئے بالکل ہی آخری لمحات میں یوں ارشادفرمایا:’’اے معاذ!شایدآج کے بعدتمہاری مجھ سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکے گی ‘‘اور پھرپیچھے مدینہ کی جانب مڑ کر بغور دیکھتے ہوئے ارشادفرمایا:’’شایدتم میری مسجداورمیری قبرکے قریب سے گذروگے‘‘ (مقصدیہ کہ آج تک توہمیشہ کیفیت یہ رہی تھی کہ تم جب بھی میری اس مسجد میں آیا کرتے تھے تووہاں مجھ سے ملاقات ہواکرتی تھی،لیکن اب اس سفرسے واپسی پرجب تم میری مسجدمیں پہنچوگے تووہاں مجھ سے ملاقات کی بجائے تم فقط میری قبرہی دیکھ سکوگے)رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ گفتگو سننے کے بعد حضرت معاذؓ پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے تب ان کے سبھی ساتھی بھی رونے لگے رسول اللہ ﷺ نے جب ان حضرات کویوں رنجیدہ وافسردہ دیکھاتواب ان کی دلجوئی کی خاطرآپؐ نے ارشادفرمایا: یعنی’’میرے ساتھ سب سے زیادہ تعلق والے تو بس ’’متقین‘‘ہی ہیں ، وہ جوکوئی بھی ہوں اورجہاں کہیں بھی ہوں ‘‘ اور پھر حضرت معاذبن جبل اپنے ساتھیوں کے ہمراہ وہاں سے اس طویل ترین سفرپرروانہ ہوگئے مدینہ سے یمن محض اللہ کے دین کی خدمت اوراس کی نشر و اشاعت کی خاطر حضرت معاذبن جبل اوران کے ساتھیوں کی اس سفرپرروانگی کے بعدرسول اللہ ﷺ کی طرف سے انہیں دی گئی اطلاع درست ثابت ہوئی
،چنانچہ حضرت معاذؓ کی یمن سے واپسی سے قبل ہی آپؐ اپنے اللہ سے جاملے،حضرت معاذؓ کی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جوالوداعی ملاقات ہوئی تھی واقعی وہ ہمیشہ کیلئے ’’الوداعی‘‘ثابت ہوئی، حضرت معاذؓکو اس کے بعدکبھی رسول اللہ ﷺ کادیدارنصیب نہیں ہوسکا، یمن سے واپس مدینہ آمدکے بعداب ان کی اداس اوربے رونق نگاہیں رسول اللہ ﷺ کوتلاش کرتی رہیں ،مسجدِنبوی میں مدینہ کے گلی کوچوں میں ہرجگہ نگری نگری اوربستی بستی اب معاذؓ کی آنکھیں اس عظیم شخصیت کے دیدارکیلئے تاحیات بس ترستی ہی رہیں کہ جس کادیداراب ممکن نہیں تھا،وہاں اب رسول اللہ ﷺ نہیں تھے،اب فقط آپؐ کی یادیں آپؐ کی باتیں اورآپؐ کی نشانیاں باقی تھیں ۔