You are currently viewing “نکاح: اللہ کی رضا میں جوڑتا ہوا رشتہ”

“نکاح: اللہ کی رضا میں جوڑتا ہوا رشتہ”

خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی تاسیس کا سہرہ انبیا علیہم السلام کے سر جاتا ہے۔ خاندان انسان کی پہلی آماجگاہ ہوتا ہے، اسکی پہچان اور اور اسکی شناخت اسکے خاندان سے ہی وابسطہ ہوتی ہے ۔ نکاح ایک معاہدہ ہے جو زوجین کے درمیان طے پاتا ہے، اسکے باعث دو خاندان ایک دوسرے کے  قریب آجاتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کی رشتہ داریاں ان میں قائم ہو جاتی ہیں ۔ نکاح سب انبیا علیہم السلام کی سنت ہے اور یہ ایسا تعلق ہے کہ جو جنت میں ہی قائم ہو گیا تھا جب کہ اولاد جیسی نعمت بھی زمین پر انسان کو ملی لیکن زوجیت کا تعلق اس زمین سے بھی قدیم اور آسمانوں کی یاد دلاتا ہے۔نکاح عربی زبان کا لفظ ہے اس کا لفظی مطلب ملانا اور جوڑنا ہے جیسے چیزوں کو جوڑ کر ملا دیا جائے اسی سے اسکا اصطلاحی مطلب بھی اخذ ہوتا کہ ایک مرد اور عورت جو باہم زوجین بن کر زندگی گزارنے کے لیے تیار ہیں   اللہ تعالی نے یہ ایک ایسا تعلق بنایا ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ رہنے والے اور بعض اوقات ایک دوسرے سے بالکل ناواقف مرد و عورت جنہوں شاید ایک دوسرے کو دیکھا بھی نہیں ہوتا وہ نکاح کے بعد پوری زندگی کے لیے ایک دوسرے کے شریک بن جاتے ہیں غمی خوشی اور نفع نقصان میں ایک دوسرے کے سانجھی ہو جاتے ہیں،

نکاح کے بعد مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو جاتے ہیں، شریعت انہیں اجازت دے دیتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جائز جنسی لذت کا حصول کر سکیں لیکن یہ ایک ضمنی فائدہ ہے فرد کی حد تکہ بڑا فائدہ یہ ہے ایک خوبصورت ساتھ کے باعث مرد عورت کے قلب نظر محفوظ ہو جاتے ہیں اور انہیں ایک محفوظ پناہ گاہ میسر آجاتی ہے، زمانے کی آلائشیں ان پر اپنے اثرات ڈال کر انہیں آلودہ نہیں کرتیں حد یہ ہے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ جب کسی خوبصورت عورت کو دیکھو تو اپنی بیوی سے جماع کر لو گویا باہر کا لگا ہوا زنگ گھر آکر نکاح کے ہاتھوں مانجھ دیا گیا اور اس طرح ایک انسان کے ناطے پورا معاشرہ طہارت و پاکیزگی کا مرقع بن گیا۔

نکاح کا دوسرا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اولاد صیح النسب قرار پاتی ہے۔ حرامی اور حلالی کے درمیان حد تفاوت تو عمل انکاح ہی ہے بصورت دیگر تو زنا اور نکاح میں کوئی فرق نہیں۔ ایک مرد اور عورت جب محض لذت نفسانی کے لیے چھپ چھپا کر احساس جرم کے ساتھ ملتے ہیں اور حیوانیت، جنسیت، خود غرضی اور نفس پرستی کی خاطر ایک دوسرے کو جھنجھوڑتے اور بھنبھوڑتے ہیں اور پھر ہمیشہ کیلئے جدا ہو جاتے ہیں پھر ایک بچہ جنم لیتا ہے جبکہ دوسرا جوڑا ہمیشہ ساتھ رہنے کیلئے ایک دوسرے کی عمر بھر کی خوشیاں سمجھنے کے لیے اور ایک خاندان اور نسل  کی پرورش کے لیے باہم ملتا ہے اور ساری دنیا کو معلوم ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن اسکے درمیان احساس جرم کی بجائے پیار اور محبت کی فراوانی ہے رہی ہوتی ہے اور اسکے نتیجے میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا یہ دونوں بچے نفسیاتی طور ہر ایک ہی فطرت کے مالک ہو سکتے ہیں ؟ ؟ قطعا نہیں اور بالکل بھی نہیں، مذہب نے اسکے درمیان حرامی اور خاندانی کی جو حد فاصل کی لکیر کھینچ دی ہے وہ ایک ابدی حقیقت ہے۔  شرعی طور پر نکاح کا بہترین وقت بلوغت ہے۔   آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تین کاموں میں جلدی کرو نماز کا وقت ہو جائے تو اسکے ادا کرنے میں جنازہ تیار ہو جائے تو اسکے دفنانے میں اور لڑکی جوان ہو جائے تو اسکے نکاح میں جلدی کرو۔ بیوہ اور مطلقہ عورتوں اور رنڈوے مردوں کا بھی نکاح کر دینا چاہیے۔ نکاح سے ایک خاندان کی بنیاد پڑتی ہے پہلے دو میاں اور بیوی ہوتے ہیں جب اسکے ہاں اولاد جنم لیتی ہے تو دوماں اور باپ بن جاتے ہیں و ہیں وقت گزرتے دیر نہیں لگتی کہ اولاد کے نکاح کے بعد وہ ساس سسر بن جاتے ہیں اور اسکے بچے بہو اور داماد بن جاتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ انہیں میاں بیوی کی محبتوں کی نشانیاں انہیں نانا نانی اور دادا دادی بنا دیتے ہیں، جب اصل زر سے سود زیادہ عزیز ہونے کے مصداق ان میاں بیوی کو اپنی اولاد کی نسبت اپنی اولاد کی اولاد زیادہ عزیز ہو جاتی ہے پھر اسی نکاح کے ادارے کے باعث ہی چاچا، ماموں ، خالہ، پھوپھی سسرالی اور رضاعی رشتے میسر آتے ہیں یہ سب نکاح کی برکتیں اور محبتیں ہیں جو کاروبارانسانیت رواں دواں ہے

ہماری شریعت میں  اپنے بہن بھائیوں سے نکاح ممنوع ہے اس طرح باپ ماں ، دادا دادی اور نانا نانی کے بہن بھائیوں سے بھی نکاح ممنوع ہے۔ دودھ شریک بہن بھائیوں سے نکاح بھی ممنوع ہے۔ ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہے کہ جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت یعنی دودھ پینے سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔ ساس اور سسر اور اسکے والدین سے بھی نکاح ممنوع ہے۔  بیوی کی موجودگی میں اسکی بہن، پھوپھی ، خالہ کو اپنے نکاح میں نہیں لایا جا سکتا۔  غیر مسلموں میں سے صرف عیسائی اور یہودی عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے لیکن حضرت عمر نے اس سے بھی منع کر دیا تھا اور عدت کے دوران بھی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا البتہ اس دوران نکاح کی بات کی جاسکتی ہے۔ چار بیویوں کی موجودگی میں پانچویں عورت کو نکاح میں نہیں لایا جا سکتا۔

نکاح کا طریقہ یہ ہے کہ جن مرد و عورت کا نکاح ہو سکتا ہو ان میں سے مرد عورت کو پیغام نکاح بھیجے گا اسکو اصطلاح میں ایجا کہا جاتا ہے عورت اس پیغام کو قبول کر لے گی۔ اگر چہ فریقین خود ایجاب و قبول کر سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ اسکے خاندان اس عمل میں شریک ہوں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کا اعلان کرو اگرچہ دف بجا کر ہی ۔ یہ ایک معاشرتی عمل ہے اور اس میں معاشرے کو شریک ہونا چاہیے تا کہ کل کو جب وہ میاں بیوی اکٹھے جارہے ہوں لوگوں کو پتہ ہو کہ چند دن پہلے ان کا نکاح ہو چکا ہے۔ اگر عورت اس مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو ایک فرد دو گواہوں کی موجودگی میں اسکی رضا مندی لے آئے ، اب یہ فرد اس عورت  کا وکیل ہوگا اور عورت کی غیر موجودگی میں اسکا نکاح کروا دیگا نکاح کا سنت طریقہ یہ ہے کہ مجلس نکاح میں خطبہ دیا جائے جس میں نکاح کی فضیلت کے ساتھ ساتھ اسکے فضائل اور لوگوں کو تقوی اور پاکدامنی کی نصیحت کی جائے۔ خطبہ کے بعد دعا اور پھر چھوارے تقسیم کرنا بھی سنت ہے۔ ولیمہ لڑکے کی طرف سے ہوگا عذاور وہ اپنے نکاح کی خوشی میں حسب استطاعت، لوگوں کو کھانا کھلائے گا۔ عورت کا مہر اسکا حق شریعت ہے،  نکاح کے کاغذات کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے لیکن قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے کا غذات کی تیاری ایک مستحسن اقدام ہے۔