رمضان المبا رک میں جو آخری جمعہ آتا ہے اُس کے با رے میں کچھ خاص تحریر فر ما ئیں ؟
یہ آخری جمعہ ہے بڑے خشوع وخصوع کےساتھ ادا کر نا چا ہیئے حضو ر اکرم ﷺ نے تو ہر نما زکے لئے یہ ارشاد فر ما یا ہے کہ اس کو اس طر ح ادا کرو گو یا کہ وہ صلو ۃ الوداع ہے تر جمہ :جب تم اپنی نما ز کے لئے کھڑے اس طرح نماز پڑھو جیسے وادع اور رخصت کر نے والے کی نما ز ہو ( ابن ما جہ )
پس ہر نما ز کو خصو صاآخر رمضا ن کی نما زوں کو یہ سمجھ کر ادا کر وکہ یہ عمر کی آخری نما ریں ہیں تما م آداب ارکا ن وشرائط کے ساتھ اور بہتر طر یقے سے ادا کر کے نما ز پڑھو چہ جا ئیکہ جمعہ کہ نما ز اور وہ رمضا ن کے جمعہ کہ نما ز جو ستر جمعہ کے برابر ہے اور وہ بھی رمضا ن کے پچھلے جمعہ کی نما ز جس کے متعلق آپ کو اوپر معلو م ہو چکا ہے کہ پچھلا حصہ رمضا ن کے پہلے حصے سے بھی افضل اور عظیم ہے لہذا اس اہم نما زکی ادا ئیگی میں پو ری سعی اور جدو جہد کر یں جو کچھ بھی غلطی یا ں کو تا ئیاں پہلی نما ز میں ہو ئی ہیں ان سب کی تلا فی تو بہ استغفا ر اس جمعہ میں کرنی چا ہیئے اور عمر کا آخری جمعہ سمجھ کر جس طرح جد اہو نے والا حسرت نا ک انداز میں اپنو ں سے مل کے رخصت ہو تا ہے اسی طر ح مفا رقت کے رنج سے کما ل درجہ اندوہ غم سے معمور اور قلبی حضور اورتعدیل ارکا ن کے ساتھ نما زجمعہ سے ہم کنار وہم آغو ش ہو کر اس کو رخصت کر یں بلکہ جمعہ کے دن سے ہر دن کی نما ز کو آخری نما ز سمجھیں
رمضا ن کے آخری جمہ کو الو داع جمعہ کہنا صحیح ہے ؟
الو دا عی جمعہ کا تصور عوام کی غلط فہمی ہے قرآن وحدیث میں کہیں رمضان کے آخری جمعہ کو الودا عی جمہ نہیں کہا گیا اصل میں بد عتی مسلما نو ں نےاس آخری جمعہ قضا ئے عمری کی نماز مشہور جر رکھی ہے کہ اس جمہ کو چند رکعت نما ز ہڑھنے سے پو ری زندگی کی قضا ہو جا تی ہے اس وجہ سے اس جمعہ کو مشہو ر کیا گیا حالا نکہ نہ اس نما ز کی کو ئی حیثیت ہے اور نہ الوداسعی جمعہ کہنے کی ۔
قضا ء عمری نماز کی کوئی حیثیت نہیں دین میں تو اگر ویسے ہر نماز کے بعد رمضان المبا رک میں قضا ء نماز اسی وقت کی جیسے فجر کے وقت فجر کے دو فرض ظہر کے وقت ظہر کے چا ر فر ض پڑھنا جا ئز ہے یا نہیں؟صر ف جمہ کے دن ہی نہیں با قی دنوں میں بھی پڑھ سکتے ہیں ؟
کسی بھی وقت ان نماز وں کی قضا کا کوئی فا ئدہ نہیں ہےاور نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے جس با ت کی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ ہر نماز اپنے وقت پر پڑھنا فرض ہے اور کبھی کسی عذر کی وجہ سے کو ئی نما زچھو ٹ گئی تو جب بھی فر صت ملے اس کی قضا کر لی جا ئے ۔
اور رہا جا ن بو جھ کر سا لوں سا ل چھو ڑی گئی نماز کا معا ملہ تو اس سے تو بہ کرنا ہو گا ۔ اس کی کو ئی قضا اور فدیہ نہیں ہے ۔سچے دل سے اللہ سے تو بہ کریں ممکن ہے اللہ معا ف کر دے اور رمضا ن مبا رک مہینہ ہے اللہ بڑے بڑ ے گنا ہوں کو معا گ کر دیتا ہے ۔
رمضا ن کے آخری جمہ میں قضا ئے عمری کی کیا حقیقت ہے ؟
قضا ئے عمری سے متلعق لو گو ں میں یہ با ت پھیلا ئی گئی ہے کہ رمضا ن کے آخری جمہ میں چا ر نفل ایک سلا م سے پڑ ھ لے نماز کی ہر رکعت میں فا تحہ کے بعد سا ت مر تبہ آ یتہ الکرسی اور 15 مرتبہ سو رت اخلا ص پڑ ھ لے (کسی نے سو رت اخلا ص کی بجا ئے سو رت کو ثر بھی بتا یا ہے )تو تما م عمر کی نما زوں کا کفا رہ ہو جا ئے گا اگر چہ سا ت سا لوں کی نما زیں قضا ہو ں تب بھی یہ چا ر رکعت نماز کفا رہ کے لئے کا فی ہے ۔
ایک حدیث یہ ہے کہ ایسی کو ئی روایت مستند کتب حد یث میں مو جو د نہیں ہے البتہ ایک جھوٹی اور با طل رویت کا تذ کرہ ملا علی قا ری حنفی اپنی کتا ب المو ضو عا ت البکری میں کرتے ہیں کی جو شخص رمضا ن کے آخری جمعہ میں ایک فر ض نماز بطو ر قضا پڑ ھ لے تو اس کی ستر سا ل کی چھو ٹی ہو ئی نما زوں کی تلا فی ہو جا ئے گی ۔ اس روایت کو ذکر کر کے ملا علی قا ری خو د فر ما تے ہیں کہ یہ با طل روایت ہے بلکہ اس وقت علما ئے احنا ف بھی قضا ئے عمری کے نا م سے اس مر وجہ چا ر رکعت والی نما ز کو با طل قرا ر دیتے ہیں ۔ بر یلوی علما ء بھی اس مروجہ قضا ئے عمری کو بے اصل اور بد عت قرا ر دیتے ہیں ۔ جب حقیقت یہ ہے کہ رمضا ن کے آخری جمہ میں قضا ئے عمری کی نیت سے پڑ ھی جا نے والی نماز دیو بندی اور بر یلوی دو نو ں طبقا ت میں بے اصل اور بد عت ہے تو پھر ان کے ما ننے والوں میں یہ نماز ابھی بھی کیو ں را ئج ہے ۔
کیا رمضا ن میں عبا دت صر ف طا ق را توں میں ہی مشروع ہے یا جفت را تو ں مین بھی کر سکتے ہیں ؟
لو گو ں کا یہ خیال غلط ہے کہ ہم صر ف طا ق را توں میں ہی عبا دت کر سکتے ہیں ۔ مین تو لو گو ں کو کہتا ہو ں کہ شب قدر پا نے کے لئے سنت نبو ی اپنا ئی جا ئے ۔ آپ ﷺ آ خری عشرہ کی مکمل را تو ں مین شب بیدا ر ہو کر خوب خو ب عبا دت کرتے اور شب قدر تلا ش کیا کر تے ہیں ۔ ہمیں بھی اس سنت پر عمل کرنا چا ہیے اس سے کثر ت عبا دت کا مو قع ملے گا جس سے کثر ت کے سا تھ اجر بھی ملے گا اور شب قدر بھی فو ت نہیں ہو گی ۔
آخری عشرہ کی طا ق رات اگر جمہ کی شب ہو جا ئے تو وہشب قدر ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟
یہ ایک مجر د قو ل ہے جس کی کتا ب و سنت میں کو ئ دلیل نہیں ہے ۔ زیا دہ سے زیا دہ یہ کہا جا سکتا ہے قا ئل کو اپنی زندگی میں کبھی شب جمعہ لیلتہ القدر ہو نے کا احسا س ہو ا ہو اس بنیا د پر یہ با ت کہی ہو ۔ دلائل سے ہمیں یہ معلو م ہے کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے اور اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سا ل منتقل ہو تی رہتی ہے اس وجہ سے ہمین اس رات کو پا نے کے لئے مکمل آخری عشرہ اجتہا د کرنا چا ہیے ۔