You are currently viewing تاریخ اسلام میں ابوذر نے مذکورہ الفاظ میں رسول اقدس کو سلام کیا

تاریخ اسلام میں ابوذر نے مذکورہ الفاظ میں رسول اقدس کو سلام کیا

حضرت ابو ذر غفاری حضرت علی کے پیچھے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ بالآخر رسول معظم کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ جناب ابو ذر غفاری نے آپ کو دیکھتے ہی کہا

السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ الله

آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:

وَعَلَيْكَ سَلَامُ اللَّهِ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَكَاتُهُ

رسول اللہ کو سلا م

تاریخ اسلام میں جناب ابوذر کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ میں رسول اقدس کو سلام کیا اور سلام کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔رسول اکرم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید سنایا۔ اسی مجلس میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ چوتھے یا پانچویں صحابی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔

دیگر واقعات مختصر انداز میں اب انہیں کی زبانی بیان کئے جاتے ہیں۔

جناب ابوذر غفاری بیان فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرم کی خدمت اقدس میں ہی رہا۔ آپ نے مجھے اسلام ک بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دیئے اور قرآن مجید کے بعض اجزاء کی بھی میں نے آپ سے تعلیم حاصل کرلی۔ آپ نے محبت بھرے انداز میں مجھے یہ تلقین کی کہ ”ابھی یہاں اپنے مسلمان ہونے کا کسی کو نہ بتاتا، مجھے اندیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں، تو کہیں آپ کو اس جرم کی پاداش میں قتل نہ کردیں”

میں نے عرض کی: یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، مکہ سے روانگی سے قبل ایک مرتبہ ضرور قریش کے روبرو کلمہ حق بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آپ میرے جذبات دیکھ کر خاموش ہو گئے۔

ایک روز میں مسجد میں گیا دیکھا کہ قریش آپس میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ چپکے سے ان کے درمیان میں جاکر کھڑا ہو گیا اور اچانک بآواز بلند کہا: اے خاندان قریش! میں صدق دل سے اقرار کرتا ہوں۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله کہ اللہ تعالیٰ کہ سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں۔

ابھی میرے یہ کلمات ان کے کانوں کو ٹکرائے ہی تھے کہ وہ بھڑک اٹھے اور مجھے بے دریغ مارنا شروع کر دیا، قریب تھا کہ میری موت واقع ہو جاتی اتنے میں نبی کے چچا حضرت عباس میری حمایت میں اٹھے اور ان کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگے:

عقل کے اندھو کیا تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہے؟ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جب مجھے ہوش آئی تو زخموں سے نڈھال رسول اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ میری نا گفته به حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اور فرمایا۔ کیا میں نے تجھے ابھی اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟

میں نے عرض کی۔ حضور آپ نے یقیناً مجھے روکا تھا، لیکن میری دلی تمنا تھی کہ مشرکین کے نرغے میں ایک مرتبہ اسلام کا اعلان کروں۔ پھر آپ نے مجھے حکم دیا کہ اب آپ اپنی قوم کے پاس چلے جائیں۔ یہاں جو آپ نے سنا اور دیکھا انہیں جاکر بتائیں۔ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ شاید آپ کے ذریعہ انہیں فائدہ ہو، ان کی کایا پلٹ جائے اور آپ کو عند اللہ اجر و ثواب حاصل ہو۔ جب آپ کو یہ خبر ملے کہ مجھے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو سیدھے میرے پاس چلے آنا۔ جناب ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس آگیا۔ جب میں اپنی بستی میں پہنچا تو سب سے پہلے مجھے میرا بھائی ملا! اس نے پوچھا کہ یہ سفر کیسا رہا اور اس میں کیا کچھ حاصل کیا؟ میں نے اسے بتایا عزیز بھائی میں تو مسلمان ہو چکا ہوں۔ رسول اکرم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کیں، آپ کی رسالت کو تسلیم کیا۔ میری باتوں سے متاثر ہو کر میرا بھائی بھی مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا۔ بھائی جان میں آپ کا دین اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو وہ بھی فوراً اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر فرمانے لگیں بیٹا اب میں تمہارے دین سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ وہ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئیں۔ اسی روز سے یہ مؤمن گھرانہ قبیلہ غفار کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں ہمہ تن مصروف ہو گیا۔ ان کی دعوت سے متاثر ہو کر قبیلہ کے بہت سے افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اور باقاعدہ یہاں نماز کا نظام قائم کر دیا گیا۔

چند افراد نے یہ کہا کہ ہم اس وقت تک اپنے آبائی دین پر قائم رہیں گے جب تک رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف نہیں لے جاتے۔ چنانچہ جب آپ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے آئے وہ سب مسلمان ہو گئے۔

نبی کریم نے یہ دعا کی قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ مغفرت کرے اور قبیلہ بنو اسلم کو اللہ تعالی سلامت رکھے

جناب ابو ذر غفاری اپنی بستی میں مقیم رہے۔ یہاں تک کہ بدر احد اور خندق کے غزوات رونما ہوئے۔ اس کے بعد آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یہاں رسول اکرم ہی کے ہو کر رہ گئے۔ ہمہ وقت آپ کی خدمت میں مصروف رہنے لگے۔ کس قدر خوش نصیبی ہے۔ یہ سعادت وافر مقدار میں آپ کے حصہ میں آئی۔ رسول اکرم بھی ہر معاملہ میں آپ کو ترجیح دیتے۔ آپ کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ وقت ملاقات مصافحہ کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے

جب رسول اکرم یہ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے، تو جناب ابوذر غفاری بے چین رہنے لگے۔ چونکہ مدینہ طیبہ آقا کے وجود اقدس سے خالی اور آپ کی مبارک مجالس کی روشنی سے محروم ہو چکا تھا، لہذا آپ وہاں سے ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ خلافت صدیق و فاروق ہی میں وہیں مقیم رہے، لیکن خلافت عثمان میں دمشق کی طرف کوچ کر گئے۔ وہاں مسلمانوں کی یہ حالت زار دیکھی کہ وہ دنیاوی جاہ و جلال کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوئے۔ بالآخر حضرت عثمان میں اللہ نے انہیں مدینہ منورہ بلا لیا۔ تو آپ وہاں تشریف لے آئے۔ یہاں آکر دیکھا کہ لوگ دنیا کی طرف پوری طرح راغب ہو چکے ہیں تو بہت زیادہ کبیدہ خاطر ہوئے اور بڑی سختی سے لوگوں پر تنقید شروع کردی جس سے عام لوگ بہت تنگ آگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عثمان  نے انہیں ربذہ بستی میں منتقل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ آپ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اس بستی میں زندگی کے دن پورے کرنے لگے۔ یہاں آپ نے دنیا سے بالکل بے نیاز رسول اکرم اور صاحبین  کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی آسمان زہد و تقویٰ کا یہ درخشاں ستارہ ٣٢ ہجری کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا