حضرت زید کی واپسی
حضرت زید کے والد اور چچا ان کی خبر پا کر ان کو لینے نہایت بے چینی کے ساتھ سفرکرتے ہوئے مکہ پہنچے ، وہاں لوگوں سے زیدکے آقا یعنی رسول اللہ کے بارے میں معلومات حاصل کیں ،اور پھر آپؐ سے ملاقات کی ، آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا ’’اے عبدالمطلب کے گھرانے والو! تم اللہ کے پڑوسی ہو،تم لوگ تو قیدیوں کورہائی دلایا کرتے ہو،بھوکے کو کھانا کھلایا کرتے ہو،پریشان حال کی دستگیری کیاکرتے ہو اور لمحہ بھرکے توقف کے بعد نہایت درد بھرے لہجے میں کہا ہم آپ کے پاس آئے ہیں اپنے بیٹے کے سلسلے میں جوکہ آپ کے پاس ہے،ہم اپنے ہمراہ کچھ مال بھی لائے ہیں جواس کی قیمت کے طور پرکافی ہوجائے گا، پس آپ ہم پریہ احسان کردیجئے ،اور اس کے فدیہ کے طور پر آپ جو چاہیں ہم سے تقاضا کر لیجئے
رسول اللہ کی سرپرستی
اس پررسول اللہ نے قدرے حیرت کے ساتھ دریافت فرمایا’’میرے پاس تمہارابیٹا ، کون ہے وہ؟‘‘
وہ بولے ’’ آپ کا نوعمر خادم ، زید بن حارثہ‘‘
اس پر رسول اللہ نے فرمایا’’کیا میں تمہیں ایک ایسی تجویزدوں جوتمہارے لئے اس فدیہ سے زیادہ مناسب رہے گی؟‘‘
وہ بولے’’ضرور فرمائیے کیا ہے وہ تجویز؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ میں ابھی اسے یہاں بلاتا ہوں ،تم اسے اختیار دینا کہ یا وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرلے ،اور تب میں تم سے اس کا کوئی فدیہ وصول نہیں کروں گا (یعنی مفت میں تمہارے حوالے کردوں گا) اور یا وہ میرے ساتھ رہنا پسند کرلے، اور تب میں بھی اس سے بے رُخی نہیں برتوں گا (یعنی اگروہ میرے ساتھ رہنا پسند کر لیتا ہے تومیں اسے زبردستی خود سے دور نہیں کروں گا)
وہ کہنے لگے’’بے شک آپ نے بہت ہی انصاف کی بات کی ہے‘‘
اور تب رسول اللہ نے زید کو بلوایا، زید کی آمد کے بعد آپ نے ان دونوں افراد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے زید سے دریافت فرمایا ’’یہ دونوں کون ہیں ،تم انہیں جانتے ہو؟‘‘
زیدنے کہا ’’جی ہاں یہ میرے والد ہیں حارثہ بن شُراحیل ،اور دوسرے میرے چچا ہیں کعب بن شُراحیل‘‘
تب آپؐ نے زید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’میری طرف سے تمہیں اختیار ہے کہ اگر چاہو تومیرے پاس ہی رہو، اور اگر چاہو توان کے ہمراہ چلے جاؤ‘‘ زید نے کسی تردد یا تأمل کے بغیر فوری طور پر جواب دیا ’’میں تو آپ کے پاس ہی رہوں گا‘‘ تب وہ دونوں (زید کے والد اور چچا) انتہائی حیرت زدہ رہ گئے،اور زید کو یوں کہنے لگے ’’زید تمہیں کیا ہوگیا؟ یہ تم کیاکہہ رہے ہو؟ کیاتم اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنے کی بجائے یہاں غلامی کی زندگی کو پسند کر رہے ہو؟‘‘
زیدنے جواب دیا ’’میں نے ان کا(یعنی رسول اللہ کا)جوحسنِ اخلاق دیکھاہے ٗ اس کی وجہ سے میں انہیں چھوڑ کرکہیں نہیں جاسکتا‘‘
زید کا انکا ر
تب زیدکے والد اور چچا خوب اصرار کرتے رہے کہ ’’زید ہمارے ساتھ چلو‘‘جبکہ زیدکی طرف سے مسلسل انکارکاسلسلہ جاری رہا
رسول اللہ نے جب یہ عجیب وغریب صورتِ حال دیکھی تو آپؐ اپنی جگہ سے اٹھے ، اور زید کو ہمراہ لئے ہوئے سیدھے بیت اللہ کے قریب پہنچے جہاں اُس وقت حسبِ معمول قریش کے معزز افراد بڑی تعداد میں موجود تھے، آپؐ نے وہاں پہنچنے کے بعد ان تمام سردارانِ قریش کو مخاطب کرتے ہوئے با آوازِبلند یوں کہا’’اے جماعتِ قریش گواہ رہنا، آج سے یہ زید میرا بیٹا ہے‘‘
زید کے باپ اور چچا نے جب یہ منظر دیکھا تو یہ سوچ کرکافی مطمئن ہوگئے کہ ’’ہمارا بیٹا زید یہاں مکہ میں معزز ترین خاندانِ بنوہاشم میں پرورش پائے گا مزید یہ کہ جب وہ خود یہاں خوش ہے ،تو پھر ہمیں اورکیا چاہئے ؟‘‘
’تَبَنِّی
اوریوں وہ دونوں مسرور و مطمئن اور ہنسی خوشی مکہ سے واپس اپنے علاقے کی جانب روانہ ہوگئے،اور پھر اپنے علاقے میں پہنچنے کے بعد زید کی ماں کو بھی یہ کہہ کرخوب مطمئن کر دیا کہ ہمارا بیٹا وہاں مکہ میں بہت خوش ہے ، وہاں ایک بہت ہی معزز ترین اورانتہائی شریف النفس انسان نے اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے،مزید یہ کہ اب وہ گم شدہ تو نہیں ہے ،بلکہ ہمیں اب اس کا ٹھکانہ معلوم ہے ،لہٰذا جب ہمارا جی چاہے گا ہم وہاں جا کر اس سے مل لیا کریں گے۔
اِدھر مکہ شہرمیں بیت اللہ کے قریب تمام سردارانِ قریش کی موجودگی میں رسول اللہ نے جب حضرت زید کواپنامنہ بولابیٹا بنانے کا اعلان کیا تھا،تبھی سے تمام شہرمکہ میں لوگ اسے ’’زیدبن محمد‘‘ کے نام سے پکارنے لگے تھے۔
اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا حتیٰ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب کو تمام دنیائے انسانیت کی رہبری ورہنمائی کی غرض سے مبعوث فرمایاگیا۔
آپؐ کی بعثت کے بعد قرآن کریم میں ’’تَبَنِّی‘‘کی حرمت کاحکم نازل ہوا،تب آپؐ نے بھی اس حکمِ ربانی کی تعمیل میں زیدکے بارے میں یہی معاملہ اپنایاکہ یہ میر ابیٹانہیں ہے، ہاں البتہ آپؐ کی طرف سے زیدکیلئے وہی پرانی عنایتیں اورشفقتیں بدستورجاری رہیں ۔