تعارف
بہت پہلے کی یہ بات ہے،ملکِ عرب میں ’’بنی مَعن‘‘نامی ایک مشہورقبیلہ تھا،اس قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک عورت تھی جس کا نام’’سُعدیٰ بنت ثعلبہ‘‘تھا۔
ایک روز وہ حسبِ معمول اپنے گھر میں کام کاج میں مشغول تھی،اور پھر دن بھرکے اس کام کاج اورمحنت ومشقت کے بعدجب اسے کچھ فرصت میسر آئی اورگھڑی بھر کیلئے سستانے کی غرض سے وہ اپنے گھرکے آنگن میں بیٹھی تواسے اپنے میکے کی یادستانے لگی،ماں باپ اوربھائی بہنوں سے ملاقات کیلئے دل مچلنے لگا اورپھراس کا شوہر ’’حارثہ‘‘جوکام کاج کے سلسلے میں گھرسے باہرگیاہواتھا،شام کے وقت جب وہ واپس گھر لوٹا تو سُعدیٰ نے اس کے سامنے اس خواہش کااظہارکیا جس پر شوہر نے اسے چند دنوں کیلئے میکے چلے جانے کی اجازت دے دی۔
غلا می سے صحا بی تک ک سفر
تب ایک روزسُعدیٰ اپنے محلے کی دیگر چند مسافر عورتوں کے ہمراہ اس علاقے کی جانب روانہ ہوئی جہاں اس کامیکہ آباد تھا،اس سفر میں اس کاکمسن لختِ جگر’’زید‘‘بھی ہمراہ تھا، جس کی عمراُس وقت آٹھ سال تھی۔
دورانِ سفرراستے میں کچھ لٹیروں نے حملہ کردیا،مال واسباب بھی لوٹا،اورکچھ لوگوں کوقیدی بناکراپنے ہمراہ لے گئے،جن میں سُعدیٰ کاکمسن لختِ جگر’’زید‘‘بھی شامل تھا سُعدیٰ بیچاری ممتاکی ماری اس ناگہانی آفت پر بس روتی اورسرپیٹتی رہ گئی پہلے آنسوبہاتی ہوئی اپنے میکے پہنچی ،انہیں بھی خوب رُلایا،اور پھراپنے گھرچلی آئی حارثہ نے جب اپنی بیوی کوتنہا آتے دیکھاتووہ پریشان ہوگیا،سُعدیٰ نے اسے تمام ماجراکہہ سنایا تب وہ ہوش و حواس گنوا بیٹھا،سارادن بیٹے کے غم میں دردناک اشعارگنگناتا اس کی تلاش میں نگری نگری بستی بستی ماراماراپھرتا
اُس دورکے دستورکے مطابق اس بچے کوغلام بنا لیا گیا،اورپھرکچھ ہی عرصے بعدجب ’’عُکاظ‘‘کامشہورسالانہ میلہ لگا تو ان لٹیروں نے اس کمسن نوجوان کو وہاں اس میلے میں فروخت کی غرض سے پیش کیا،اُس وقت اس میلے میں قریشِ مکہ کے ناموراورخوشحال تاجروں میں سے چندافرادخریداری کی غرض سے وہاں موجودتھے،انہی میں سے ’’حکیم بن حزام بن خویلد‘‘(ام المؤمنین حضرت خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہاکے بھتیجے)نامی تاجر نے عکاظ کے اس میلے میں چندکمسن غلام خریدے جن میں حارثہ اوراس کی بیوی سُعدیٰ کایہ گمشدہ نورِنظر’’زید‘‘بھی شامل تھا۔
حکیم بن حزام (بعد میں مسلمان ہوگئے تھے لہٰذا’’رضی اللہ عنہ‘‘)ان غلاموں کوہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچے ،ان کی پھوپھی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہاکوجب اپنے بھتیجے کی آمدکی اطلاع ملی،تو وہ ملاقات نیزخیریت دریافت کرنے کی غرض سے آئیں ،تب حکیم نے انہیں بتایاکہ’’پھوپھی جان!میں نے عکاظ کے میلے سے چندغلام خریدے ہیں ،جوکہ کم سن ہیں ، کیونکہ کم سن غلام کی خودتربیت کی جائے تو آئندہ چل کراس کے ساتھ مفاہمت اور تعامل میں سہولت رہتی ہے ‘‘اورپھرحکیم نے مزیدکہا’’پھوپھی جان ان میں سے کوئی ایک غلام میری طرف سے آپ کیلئے ہدیہ ہے، آپ کی خدمت انجام دے گا،گھریلو کام کاج کر دیا کرے گا لہٰذا آپ خود پسند کر لیجئے‘‘
حضرت خدیجہ کی سر پر ستی میں
تب خدیجہ نے ان سب غلاموں پرسرسری نظر پسندڈالی توانہیں ’’زید‘‘کی شخصیت اور سراپا میں خاندانی شرافت ونجابت کے آثارنمایاں دکھائی دئیے،لہٰذاانہوں نے زید کو پسند کرلیا،اور اسے اپنے بھتیجے کی طرف سے بطورِہدیہ قبول کرتے ہوئے اپنے گھرلے آئیں ۔
اس کے بعد کچھ عرصہ ہی گذرا تھا کہ خدیجہ (رضی اللہ عنہا)کی شادی تمام بنی نوعِ انسان میں اشرف ترین اورصادق وامین یعنی محمد( ﷺ )کے ساتھ ہوگئی(جن کی ابھی تک من جانب اللہ بعثت نہیں ہوئی تھی) اس شادی کے بعدخدیجہ نے اپنے شوہرِنامدار کی دلجوئی کی غرض سے کچھ ہدایاوتحائف انہیں پیش کئے ،جن میں یہ کم سن غلام (زید)بھی شامل تھا۔
محمد ﷺ کی صحبت
یوں اب زیدکے شب وروزمحمدبن عبداللہ( ﷺ )کی صحبت ومعیت میں گذرنے لگے،کہ جنہیں اُس وقت قبیلۂ قریش میں اورتمام شہرمکہ میں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ عنقریب جنہیں اللہ کی طرف سے نبوت ورسالت سے سرفراز کیا جانے والا تھا،اورصرف قریش ہی کیا ؟تمام بنی آدم بلکہ تمام مخلوق میں سب سے افضل وبہتر قرار دیا جانااللہ کومقصودتھا۔
حضرت زید کی والدہ
دوسری طرف بیٹے کی جدائی اورگم شدگی کے باعث اس کی ماں صدمے سے نڈھال تھی، مسلسل روتے روتے اس کابراحال ہوگیاتھا، آنسوتھے کہ تھمتے ہی نہیں تھے،دل میں ایسی آگ لگی تھی جوکسی صورت بجھتی نہیں تھی،جوبات اسے مزیداداس اورپریشان کئے رکھتی تھی وہ یہ کہ کاش کسی طرح اسے کم ازکم اتناہی معلوم ہوجائے کہ اس کانورِنظراورلختِ جگر زندہ ہے یامرچکاہے؟ اگرزندہ ہے تواس سے دوبارہ ملنے کی امیدباندھ لے، اور اگر مر چکا ہے توبس رودھوکرخاموش ہوجائے۔
جبکہ اس بچے کاغمزدہ باپ ’’حارثہ‘‘ توبیٹے کی جدائی میں ہوش وحواس ہی تقریباً کھو بیٹھا،کسی کام کاج کے قابل نہیں رہا ،کام کاج کی بجائے دن بھربیٹے کی تلاش میں چہارسو مارا مارا پھرتا، ہر آنے جانے والے کوروک روک کراس سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھتا، دن بھربے خودی ولاچاری کی کیفیت میں اشعار گنگناتا پھرتا، جن کامفہوم کچھ اس طرح ہے:
’’اے میرے بیٹے زید!تیری یادمیں میں کتنارویا جنہوں ،میری سمجھ میں کچھ نہیں آتاکہ میں آخرکیاکروں ؟ مجھے کیسے پتہ چل سکے گی یہ بات کہ تواب تک زندہ ہے لہٰذامیں تجھ سے دوبارہ ملنے کی امیدقائم کرلوں یایہ کہ تواب اس دنیامیں نہیں رہا لہذامیں دل پر پتھر رکھ لوں تجھے زمین نگل گئی ہے؟یا آسمان کھا گیاہے؟کیاتجھے موت نے اُچک لیاہے؟ یاان ظالم پہاڑی راستوں میں توہمیشہ کیلئے کہیں کھو گیا ہے؟ ہرصبح طلوع ہوتاہوایہ سورج مجھے تیری یاد دلاتا ہے،اورپھر ہر شام غروب ہوتاہوا اچانکیہ سورج مجھے پھرتیری ہی یاددلاتا ہے، اورتب ڈوبتے ہوئے سورج کے ساتھ میرادل بھی ڈوبنے لگتاہے،اورمجھے موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے‘‘
٭ اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا، آتے جاتے موسموں کاسفرجاری رہا آخرایک بارموسمِ حج کے موقع پردوردرازکے علاقوں سے جب بڑی تعدادمیں لوگ مکہ آئے ہوئے تھے،زیدکے قبیلے کے کچھ لوگ بھی آئے تھے،انہی دنوں ایک روز بیت اللہ کے طواف کے دوران ان میں سے کچھ لوگوں کا اچانک زیدکے ساتھ آمنا سامنا ہوگیا،ملاقات ہوئی، صورتِ حال کے بارے میں آگاہی ہوئی،اور پھر ان لوگوں نے حج سے فراغت کے بعد واپس اپنے علاقے میں جاکر زید کے والدین کواس بارے میں مطلع کیا،تب زیدکے باپ حارثہ نے نہایت عجلت میں مکہ روانگی کیلئے سواری کاانتظام کیا اپنے بھائی کعب کوبھی ہمراہ لیا، کچھ مال بھی ساتھ لیا،تاکہ مکہ پہنچنے کے بعد زید کے آقا کو یہ مال بطورِفدیہ پیش کرکے اپنے نورِنظر کو آزاد کرایا جاسکے
(جا ری ہے)