You are currently viewing حضرت یو سف قید خا نے میں

حضرت یو سف قید خا نے میں

عزیز مصر نے اپنے خاندان کا عیب چھپانے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس واقعہ کو بھول جائیں اسلیے حضرت یوسف کو قید خانہ میں ڈال دیا لیکن اللہ ت نے اس قید کو بھی آپ کے لئے خیر و برکت کا باعث بنا دیا۔

فرمان الہی ہے

پھر (یوسف کی پاکدامنی کی تمام نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں ۔ (یوسف 12 : آیت (35) ۔

 جب حضرت یوسف کو قید خانہ میں ڈالا گیا تو آپ کے ساتھ دو ایسے نوجوانوں کو بھی قید کیا گیا جن میں سے ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا باورچی تھا۔ ان دونوں پر بادشاہ کو زہر دینے کا الزام تھا۔ جب جیل میں ان کی ملاقات حضرت یوسف سے ہوئی تو وہ آپ کے اخلاق وکردار، عادات و اطوار، اقوال و افعال، کثرت عبادت اور اللہ ٰ کی مخلوق پر شفقت سے بہت متاثر ہوئے ۔ ان دونوں نے ایک ہی رات میں خواب دیکھا۔ ساقی نے خواب میں دیکھا کہ انگور کی بیل کی تین شاخیں ہیں ، ان میں پتے اگ آئے ہیں اور انگوروں کے گچھے لگ گئے ہیں۔ اس نے انگور لے کر بادشاہ کے پیالے میں نچوڑے اور اسے وہ مشروب پلا دیا۔ باورچی نے خواب میں دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیوں کی تین ٹوکریاں ہیں اور پرندے سب سے اوپر کی ٹوکری سے کھا رہے ہیں۔ ان دونوں نے اپنا اپنا خواب حضرت یوسف کو سنایا اور تعبیر بتانے کی بھی درخواست کی ۔

حضرت یوسف کا تعبیر بتانے سے پہلے دعوت توحید پیش کرنا : حضرت یوسف کے جیل کے ساتھیوں نے جب آپ کو اپنا اپنا خواب سنایا

تو آپ نے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں اللہ کی توحید اور دین کی باتیں سمجھائیں اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کو اس کے خواب کی تعبیر بتائی۔

حضرت یوسف نے اپنے جیل کے ساتھیوں کو اللہ کی توحید اور دین کی باتیں سمجھانے کے بعد انہیں تعبیر یہ بتائی کہ تم میں سے جس نے اپنے آپ کو شراب نچوڑتے دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ اسے قید سے رہائی ملے گی اور وہ دوبارہ اپنے بادشاہ کو شراب پلانے پر مامور ہو گا اور جس نے اپنے سر پر روٹیوں کے ٹوکرے دیکھے ہیں اسے پھانسی دی جائے گی اور پرندے اس کے سر سے گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے۔

اے میرے قید خانہ کے ساتھیوں، تم دونوں میں سے ایک تو اپنے مالک (بادشاہ) کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا لیکن دوسرا سولی پر چڑھا دیا جائے گا اور پرندے اس کے سر میں سے ( گوشت ) نوچ نوچ کر کھائیں گے ۔ تم دونوں جس بارے میں مجھ سے ہو، اس کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔“ (یوسف 12 : آیت (41)پوچھ رہے

جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اسے (اہل علم کے سامنے ) بیان کرے اور اگر کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو وہ شیطان کی طرف سے ہے لہذا اس خواب کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور وہ خواب کسی سے بیان نہ کرے ایسا کرنے سے وہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گا ۔ ( بخاری، مسلم عن ابی سعید الخدری

حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بتانے کے بعد ساقی سے کہا کہ تم تو نجات پا جاؤ گے اس لئے جب بادشاہ کے پاس جاؤ تو ان سے میرا ذکر بھی کرنا کہ ایک بے گناہ آدمی قید میں پڑا ہوا ہے۔ رہائی پانے والے ساقی کو آپ کا بادشاہ کے سامنے ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ اس طرح آپ کئی سال تک مزید قید خانہ میں ہی رہے۔

ساقی کے رہا ہونے کے کئی سال کے بعد مصر کے بادشاہ کو خواب آیا کہ سات موٹی گائیں ایسی ہیں جنہیں سات دہلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات خوشے خشک ہیں اور سات سبز ۔ اس نے اپنے درباریوں سے اپنے اس خواب کی تعبیر پوچھی لیکن کوئی بھی اس کی تعبیر نہ بتا سکا بلکہ وہ کہنے لگے یہ تو پریشان کن خواب ہیں ۔ آخر کار وہ ساقی جو قید سے رہائی پا کر بادشاہ کے ہاں پہنچا تھا اس نے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں قید خانہ میں جاتا ہوں وہاں ایک یوسف نامی آدمی ہیں جو اس خواب کی تعبیر بتا سکتے ہیں۔ چنانچہ اجازت ملنے کے بعد وہ آپ کے پاس آیا اور آپ سے خواب کی تعبیر دریافت کی۔ آپ نے جو تعبیر بتائی وہی من و عن صحیح ثابت ہوئی ۔

حضرت یوسف نے اسے بتایا کہ تم لوگ سات سال تک خوب کھیتی باڑی کرو گے تو جو فصلیں تم کٹو انکی بالیاں خوشوں میں ہی رہنے دینا تاکہ وہ محفوظ رہے اسکے اُس تھوڑی سی مقدار کے جو تم کھاؤ گے  پھر سات تک قحط پڑے گا اور اسمیں تم وہ انج کھاوگے جو تم نے پہلے ٧ سالوں میں جمع کیا تھا سوائے اس کی جوتم اگلے پیداوار کے بیجوں کے لیے چھوڑو  پھر اُسکے بعد خوب بارش برسے گی  بادشاہ کے ساقی نے حضرت یوسف سے بادشاہ کے خواب کی تعبیر پوچھی اور آپ نے اس کی تعبیر بتائی تو وہ فوراً بادشاہ کے پاس پہنچا اور حضرت یوسف کی بتائی ہوئی تعبیر اس کے سامنے پیش کی ۔ خواب کی تعبیر معلوم ہونے پر بادشاہ بڑا خوش ہوا اور حضرت یوسف کلام کو اپنے خاص وزرا میں شامل کرنے کے لئے اپنے پاس لانے کا حکم دیا۔ جب بادشاہ کا قاصد آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے اس وقت تک قید خانہ سے باہر نکلنے سے انکار کر دیا جب تک آپ کی مکمل بے گناہی کا اظہار نہ ہو جائے ۔

آپ نے قاصد سے کہا کہ بادشاہ کو میرا پیغام پہنچا دو کہ جن عورتوں نے مکر و فریب کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ان سے پوچھیں کہ اصل حقیقت کیا تھی ؟ بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت کیا تو انہوں نے اصل حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یوسف پاکدامن ہیں، ان میں کوئی بُرائی نہیں اور عزیز مصر کی بیوی نے بھی جب دیکھا کہ حق واضح ہو گیا ہے تو اس نے بھی اقرار کیا کہ میں نے ہی اسے ورغلانے کی کوشش کی تھی وہ یقینا بے گناہ ہے۔ جب آپ کی بے گناہی ثابت ہو گئی تو آپ نے عرض کیا کہ میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا بے شک نفس سے تو گناہ کے ہونا ممکن ہیں مگر یہ کہ جس پر اللہ اپنی خاص رحمت فرمائے۔

Leave a Reply