You are currently viewing “حضرت یوسف: صبر اور بلند حوصلے کی داستان”

“حضرت یوسف: صبر اور بلند حوصلے کی داستان”

 حضرت یوسف  کے سوتیلے بھائی اس کوشش میں تھے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اس بھائی (یوسف ) کو اپنے ساتھ لے کر جائیں اور کسی گہرے کنویں میں پھینک دیں تا کہ کوئی مسافر انہیں اٹھا کر لے جائے ۔ ایک دن وہ اپنے والد محترم کے پاس آئے اور اپنی ہمدردی کا یقین دلاتے ہوئے کہنے لگے کہ اے ابا جان ، آپ یوسف  کے بارے میں ہم پر اعتبار کریں، دنیا میں بھائی سے زیادہ بھائی کا سچا خیر خواہ کون ہو سکتا ہے ؟ کل ہم سیر و تفریح کے لئے جا رہے ہیں۔ آپ یوسف کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تا کہ ہم سب بھائی مل جل کر کھائیں پئیں اور کھیلیں ۔ حضرت یعقوب  نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ابھی چھوٹے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کھیل کود میں مصروف ہو جاؤ اور انہیں بھیڑیا کھا جائے لیکن بھائیوں نے اپنے والد محترم کو یوسف کے تحفظ کا پورا یقین دلایا۔ آخر کار حضرت یعقوب نے انہیں یوسف  کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔

( ترجمہ ) ” ( اس فیصلہ کے بعد ) انہوں (بھائیوں) نے (اپنے باپ سے ) جا کر کہا : اے ابا جان، آخر آپ یوسف   کے بارے میں ہم پر اعتبار کیوں نہیں کرتے حالانکہ ہم تو یقینا اس کے خیر خواہ ہیں ۔ کل آپ اسے ضرور ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ وہ خوب کھائے پینے اور کھیلے، اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں ۔ انہوں (یعقوب ) نے کہا : تمہارا اسے لے جانا مجھے تو سخت صدمہ دے گا اور مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ تمہاری غفلت کی وجہ سے کہیں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے ۔ انہوں (بھائیوں) نے جواب دیا کہ ہم جیسی (طاقتور ) جماعت کی موجودگی میں بھی اگر اسے بھیڑیا کھا جائے پھر تو ہم بڑے ہی نکمے ہوئے ۔

حضرت یعقوب  کو مطمئن کرنے کے بعد آپ کے بھائی انہیں لے کر چل پڑے۔ جیسے ہی وہ اپنے والد محترم کی نظروں سے اوجھل ہوئے آپ کو مختلف انداز میں پریشان کرنے لگے ۔ آخر کار انہوں نے اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق آپ کو ایک گہرے کنویں میں پھینک دیا جیسے ہی آپ  کو کنویں میں ڈالا تو اللہ رب العزت نے آپ لیا کی طرف وحی فرمائی کہ آپ پریشان نہ ہوں ، آپ جس مصیبت میں ابھی گرفتار ہوئے ہیں بہت جلد اللہ تعالی آپ کو اس سے نجات دلائیں گے اور آپ کو ایسے اعلیٰ مقام پر فائز فرمائیں گے کہ ایک وقت آئے گا کہ یہی بھائی آپ کے سامنے شرمندہ ہو کر کھڑے ہوں گے اور آپ انہیں ان کی یہ باتیں یاد دلائیں گے اس حال میں کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں

(ترجمہ ) ( اس طرح اصرار کر کے) پھر جب وہ (بھائی) اسے (یوسف کو ) لے چلے اور سب نے مل کر یہ طے کر لیا کہ اسے غیر آباد گہرے کنویں کی تہہ میں پھینک دیں گے تو ہم نے یوسف کی طرف وحی کی کہ یقیناً ( وہ وقت آئے گا) آپ انہیں (اپنے بھائیوں کو) اس واقعہ کی خبر اس حال میں دیں گے کہ وہ جانتے ہی نہ ہوں ۔ (یوسف 12 : آیت (15)

جب بھائیوں نے حضرت یوسف کو کپڑے اتار کر کنویں میں پھینک دیا تو انہیں اس بات کی فکر ہوئی کہ ہم اپنے والد محترم کو جا کر کیا جواب دیں گے ؟ وہ مختلف حیلے بہانے سوچنے لگے۔ آخر یہ طے پایا کہ سب یک زبان ہو کر نہیں کے کہ یوسف  کو بھیڑیا کھا گیا ہے ، بطور ثبوت انہوں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے اس کے خون سے حضرت یوسف کے کرتے کو آلودہ کیا اور پھر رات کے وقت روتے ہوئے حضرت یعقوب کے پاس پہنچے اور اپنے طے شدہ منصوبے کے تحت باپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے لگے۔

” اور وہ (بھائی) عشا کے وقت اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے :

اے ابا جان ، ہم تو آپس میں دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ پس اسے تو بھیڑیا کھا گیا ، آپ تو ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے ، اگر چہ ہم بالکل بچے ہی ہوں اور وہ یوسف   کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لائے ۔ (یوسف 12 : آیات 16 تا 18)

جب حضرت یوسف   کے بھائیوں نے حضرت یعقوب  کو حضرت یوسف کا خون آلود کرتا دکھایا۔ آپ  اسے دیکھتے ہی پہچان گئے کہ میرے بیٹوں نے کسی سازش کے تحت یوسف کو میری نظروں سے اوجھل کر دیا کیونکہ وہ خون آلود کرتا کہیں سے بھی پھٹا ہوا نہیں تھا پھر آپ نے روتے ہوئے کہا کہ اب میں اس صدمہ پر صبر کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہوں۔ )

(حقیقت یہ نہیں) بلکہ تمہارے دلوں نے تمہارے لئے ایک سازش بنالی ہے۔ خیر (اب تو ) صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد طلب کروں گا۔ (یوسف 12 : آ18)

مومن کے معاملے پر تعجب ہے کیونکہ اس کا ہر معاملہ خیر و بھلائی والا ہوتا ہے اور مومن کے علاوہ کسی کو یہ سعادت حاصل نہیں۔ اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے ، یہ اس کے لئے بہتر ہے۔ اگر مصیبت پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لئے بہتر ہے۔“

حضرت یوسف کے سوتیلے بھائی آپ  کو کنویں میں ڈال کر واپس چلے گئے تو آپ  کنویں کے اندر اللہ تعالی کی مدد اور رحمت کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد شام سے مصر جانے والا ایک تجارتی قافلہ وہاں سے گزرا۔ انہوں نے اپنے ایک آدمی کو کنویں سے پانی لانے کے لئے بھیجا۔ جب اس نے اپنا ڈول کنویں میں ڈالا تو حضرت یوسف اس کے ساتھ لٹک گئے اور جیسے ہی اس نے کھینچا تو آپ بھی اس کے ساتھ باہر نکل آئے۔ اس آدمی نے جب آپ کو دیکھا تو فوراً کہا : ہمارے لئے تو ایک بہت بڑی خوشخبری ہے ، یہ تو ایک بہت خوبصورت لڑکا ہے پھر انہوں نے حضرت یوسف کو اپنے تجارتی مال میں شامل کر لیا اور مصر کے بازار میں لے جا کر دیگر سامان کی طرح آپ  کو بھی غلام بنا کر فروخت کرنے کا اعلان کیا۔

Leave a Reply