حضرت عقیل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور حضرت عباس کے بھائی تھے۔ وہ ابتدائی مسلم کمیونٹی میں ایک انتہائی قابل احترام شخصیت تھے، اور اپنی حکمت، ہمت اور تقویٰ کے لیے مشہور تھے۔
جب امام حسین علیہ اسلام اللہ کے گھر میں پنا ہ لے رہےتھے تو مکہ سے ہزاروں خط آ رہے تھے اے نواسہ رسول ہم آ پ کے نانا کے دین پر چلنے والے ہیں ہمیں اس ظا لم بادشا ہ سے بچا ئے یہ ظالم کہتا ہے کو ئی وہی نہیں نا زل ہوئی تھی ،یہ شرے عام زنا کرتا ہے شرے عام شراب پیتا ہے اور بس یہ کہتا رہتا ہے کوئی وہی نازل نہیں ہو ئی نا کو ئی رسول آ یا تھا ہم کیسے بادشا ہ کی بعیت کر سکتے ہیں ،جو حلال حرام میں فرق نہیں رکھتا ،اور آخیر کا ر ایسے ایسے خط آنے لگ گے کہ اے نواسہ رسول اگر آ ج آپ نے ہماری نصرت نہیں کی تو محشر میں ہم آ پ کے نانا کے سامنے آ پ کی شکا یت کریں گے کہ وقت کا ظالم بادشا ہ آ پ کی شرعیت کا مذ اق بنا تارہا اور آ پ کا نواسہ خاموش رہا بس امام حسین نے اپنے سفیر مسلم بن عقیل جو آپ کے چچا زاد بھا ئی تھے کو فہ کی جانب روانہ کر دیا ۔جیسے ہی بنی ہاشم کا شہزادہ امام حسین کا پیغام لے کر کو فہ آ یا تو سب لو گ آ پ ہاتھ میں بعیت کرنے لگ گے اور کہنے لگ گے لیبک یا حسین لیبک یا حسین ،مسلم بن عقیل ہمارے مولا حسین کو بلا ئے وقت کے ظالم بادشاہ یزید کو بتا ئے کہ ان کا نا نا اللہ کا رسول ہے اور وہ دین اسلام لے کر آ ئے ہیں ، جناب مسلم نے ان کی عقیدت کو د یکھا تو امام حسین کی طرف خط لکھا اور کہا اے نواسہ رسول یہاں کے لوگ آپ کی نصرت چا ہتے ہیں جلدمبارک قدم لے کر کو فہ کی طرف آ جا ئے تا کہ ہم اسلام کا پرچم بلند کر سکے ۔ اور وہاں یزید کو خبر ملی کہ میں جو کو فہ کا میں نے حا کم رکھا ہے اس کی موجودگی میں مسلم بن عقیل آ گیا اور لوگ ا مام حسین کی بعیت کر رہے ہیں ۔ تو اس نے ابن ضیاد کو بھیجتا ہے ، اور وہ کہتا ہے نعمان تم سے کو فہ کہ حکومت سنبھالی نہیں جا تی آ ج سے ابن ضیاد کو کو فہ کا حاکم بناتا ہے اور وہاں مسلم بن عقیل کا خط کوفہ میں امام حسین کو ملتا ہے اور یزید بھی یہی چا ہتا تھا کہ اما م حسین کو طوافے کعبہ کے درمیان شہید کرے امام حسین علیہ اسلام اپنے حج کو اپنے عمرے میں تبدیل کر کے اپنی بہنیں بیٹیوں،اور پورے خاندان کو لے کر کو فہ کی جانب روانہ ہو جا تے ہیں ۔ بس ابن ضیاد نے سوچا کے کو فہ میں بغا وت کیسے پھیلائے اس نے یہ نعراہ لگا یا کہ جو اپنی تلار مجھے دے گا اور یزید کی بعیت کریں گا میں اس کو اتنا سونا دوں گا اس کی نسلیں بیٹھ کر کھائے گئی ۔ جیسے ابن ضیاد کی یہ خبر کوفہ میں ہر جگہ پہنچی وہاں کی عورتوں نے سوچا اس سے اچھا اور موقع کیا ہو گا اپنے اپنے مردوں سے کہنے لگی تمہیں نہیں پتہ ابن ضیاد تلوار کے بدلے سونا دیتا ہے، رفتہ رفتہ کوفہ کا ہر شخص اپنی تلوار ابن ضیاد کو دتا رہا اور ابن ضیاد نے اپنے لشکر سے ہ کہا کہ کو ئی بھی کو فہ کی گلی میں نا آ ئے ورانہ خام مخوا مارا جا ئے گا کوفیوں نے رسول اللہ کی اس حدیث کو یاد دیلا دیا میری امت کا سب سے بڑا فتنہ دولت ہے تاریخ میں لکھا سفیر اما م حسین کو ہر شخص رفتہ رفتہ چھوڑتا گیا یہاں تک مسجد میں نماز کے لیے کو ئی بھی شخص پیچھے نہیں تھا آپ کو فہ کی گلیوں میں جاتے اور لوگوں سے کہتے کہاں ہیں وہ لوگ جو حضرت امام حسین کو خط لکھا کرتے تھے ان کی نصرت چا ہتے تھے ،کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے کہا حضرت علی کو بلا یا جا ئے اے کو فیوں میں تمہارا مہمان ہوں میں تو تمہارے بلاوے پر ایا ہوں مگر افسوس کو فہ کا ہر فرد اپنے گھر کے دروازے بند کیے ہو ئے تھے ۔اور مسلم بن عقیل ایک گھر کے دروازے کے پاس جا کر بیٹھ جاتے تھے اس گھر میں ایک بو ڑھی عورت نے جیسے دیکھا،اور کہا کو ن ہے تمہیں معلوم نہیں ابن ضیاد نے یہ حکم نا فذ کیا ہے جو گھر سے باہر دیکھے گا وہ مارا جا ئے گا ۔ وہ کہنے لگے اے اللہ کی بندی میں کوفہ کا بندہ نہیں ہوں وہ کہنے لگی پھر کون ہوں تم آ پ نے فرمایا میں سفیر امام حسین ہوں ، مسلم بن عقیل ہوں وہ عورت رونے لگی اور کہنے لگی اے مسلم بن عقیل آ ئے میرے گھر تشریف لا ئے آ پ کو اپنے گھر میں مہمان بناتی ہے ۔ وہاں ابن ضیاد یہ علان کیا تھا جو مجھے مسلم بن عقیل کی خبر دے گا میں اسے اتنا سونا دوں گا کہ وہ حیران ہو جا ئے گا ۔ اس عورت کا ایک جواری بیٹا تھا اور جب وہ محسوس کرتا ہے کہ سفیر امام حسین کو پنا ہ میری ماں نے دی ہے تو فورن جاتا ہے ابن ضیاد کو یہ خبر سناتا ہے تو ابن ضیاد فوری اپنے فوج کو بوڑھی عرت کے گھر بھیجتا ہے ۔ جب چاروں طرف سپاہیوں نے گھر کو گھیر لیا اور کہا اے مسلم گھر سے با ہر آ جاؤ ں ورانہ ہم اند ر آ جا ئے گے جناب مسلم گھر سے باہر آ تے ہیں ایک طرف امام علی علیہ اسلام کا بھتیجااور دوسری طرف ہزاروں کا لشکر تاریخ میں لکھا کہ کو فہ کے لوگ حیران ہو گے کہ ایک اکیلا انسان ایسے بھی لڑھ سکتا ہے لاشوں پے لاشیں گیرا تے گے ، لیکن کو ئی بھی سفیر امام حسین کو ایسے پکڑ نا پایا سب نے سمجھ لیا یہ علی کا شیر ہے اس سے جنگ میں کو ئی جیت نہیں سکتا اتنے میں فوج حاکم نے کہا اے مسلم میں تم سے وعدہ کرتا ہوں آ پ کی ہر بات کو مانا جا ئے گا آپ گرفتاری پیش کریں بس مسلم بن عقیل کی گرفتار ی ہو جا تی ہے آ پ کو ابن ضیا د کے سامنے پیش کیا جا تا ہے ۔ وہاں کے لوگ آپ کے ایمان کا مذاق اڑا نے لگ جاتے ہے جناب مسلم بن عقیل نے کہا مجھے معلوم ہے تم لوگ اپنا وعدہ وفا نہیں کروں گے ، مگر میرے آنے کا مقصد ہے میں وسعیت کرنا چا ہتا ہوں اور میں چا ہتا ہوں میری وسعیت کو پورا کیا جا ئے پھر آپ نے وسعیت کی کہ میں امام حسین علیہ اسلام کو خط لکھا ہے کہ ہ کو فہ کی جانب آ جا ئے میں چا ہتا ہوں امام حسین کو میرا پیغام پہنچا دیا جا ئے اور بتا یا جا ئے کہ وہ کو فہ نہ آ ئے کو فہ والے بے وفا ہےدولت کے سامنے بیک جاتے ہیں ،اور میری دوسری وسعیت یہ ہے کہ میرے جسم کو تدفین کیا جا ئے ۔ اور میری تیسری وسعیت یہ ہے کہ میں 700 درم کا مقروض ہوں اور میری تلوار بیچ کر میرا قرض اتارا جا ئے دربار والے زور زور سے ہنسنے لگ جا تے ہیں ۔ اور ابن ضیاد نے حکم دیا اس کو کو فہ کی سب سے اونچی جھت سے ایسے گیراوں کہ کوفہ کا ہر فرد دیکھے کہ ہم نے حسین کے سفیر کا کیا حشر کیا ہے ۔ جناب مسلم کو پیاسا محل کی چھت سے گریا جا تا ہے جیسے ہی آپ چھت سے زمین کی جانب آ نے لگتے ہیں سپاہی خوش ہو نے لگ جاتے ہیں آ پ کا سر دھڑ سے الگ کرکہ داروالماراں کی دیور سے لٹکا یا جا تا ہے اور آپ کے پاؤں میں رسی باندھ کر کوفہ کی گلیوں میں گھومایاجاتا ہے اور آ پ کا کٹا سر مکہ کی طرف دیکھ کر یہ فرماتا ہے ،سلام ہوں رسول للہ کے نواسہ امام حسین سلام ہوں میرے غریب ابن علی پر اور آپ کوفہ اور مکہ کے درمیان تھے اور آ پ نماز پڑھ رہے تھے ۔ جسے ہی آپ کے کانوں پر آپ کے سفیر مسلم بن عقیل کا آ خری سلام پہنچا آ پ کی آ نکھیں نم ہو گیئں ۔جناب عباس نے پوچھا اے نواسہ رسول آپ کی آنکھیں نم کیوں ہیں ؟امام حسین علیہ اسلام نے فرمای اے عباس میرا بھا ئی مسلم بن عقیل کو فہ میں غریب الوطن میں شہید کر دیے گے ہیں ۔حضرت عباس کو جلال آ یا اے میرے مولا مجھے اپنی دعاسے ابھی کو فہ پہنچا ئے حضرت امام حسین نے عباس کے چہرے کی طرف دیکھا اور کہا اے عبا س تم زنیب کے پردے کے محافظ ہوں تمہیں بابا علی نے کربلا کے لیے ما نگا ہے ۔ اتنی دیر میں آپ جناب مسلم بن عقیل کے خیمہ میں آتے ہیں اور ان کی زوجہ کو ان کی شہادت کی خبر سنا تے ہیں ۔ جناب مسلم کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں انہیں پیار کرتے ہیں ،کتنے خوش نصیب ہیں جناب مسلم کی اولاد کے سر پر ہاتھ رکھنے والے کا ئنات کے امام علیہ اسلام مو جو د ہیں اور کتنے غریب ہیں امام علیہ اسلام کی چار سال کی بیٹی سکینہ جب انکے پاس ان کے بابا کی شہادت کی خبر پہنچتی ہے تو کبھی شمر تماچا مارتا ہے تو کبھی کو ئی ۔ جب کو ئ فوت ہوتا ہے تو ان کے بچوں کو لوگ دیلاسہ دیتے ہیں چو متے ہیں مگر کتنے غرب ہیں امام حسین کے بچے جنہیں کو ئی دیلاسہ دینے ولا بھی نہیں تھا ۔ سلام ہوں سفیر حسین مسلم بن عقیل جنہوں نے اللہ کا دین بچا یا ،سلام ہوں امام حسین کی ال پر جنہوں اللہ کا دین بچا یا ،۔ حضرت عقیل کا مزار ایک شیعہ مسلمانوں کا مزار ہے جو کوفہ، عراق میں واقع ہےحضرت عقیل کا مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے۔ یہ کوفہ کے مرکز میں کوفہ کی عظیم مسجد کے قریب واقع ہے۔ مزار ایک سادہ ڈھانچہ ہے، جس میں صحن کے ساتھ ایک گنبد نما حجرہ ہے۔ مزار کا اندرونی حصہ قرآنی آیات اور مذہبی تحریروں سے مزین ہےاس مزار میں مسلم کے دو بیٹوں محمد اور ابراہیم کی قبر بھی ہے۔ ان دونوں لڑکوں کو بھی امویوں نے قتل کر دیا تھا، اور ان کی موت کو شیعہ مسلمان یوم عاشورہ پر یاد کرتے ہیں۔حضرت عقیل کا مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک اہم مذہبی مقام ہے۔ یہ زیارت اور یادگار کی جگہ ہے، اور یہ ان قربانیوں کی یاددہانی ہے جو انصاف اور آزادی کی جدوجہد میں دی گئی تھیں۔یہاں مزار کے بارے میں کچھ اضافی تفصیلات ہیں:یہ مزار 10ویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا، لیکن صدیوں کے دوران اسے کئی بار دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔یہ مزار پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے۔
یہ مزار بھی ایک مشہور سیاحتی مقام ہے، اور یہاں تمام مذاہب کے لوگ آتے ہیں۔یہ مزار یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی جگہ ہے۔