موسی بن عمران بن قاهث بن عازر بن لاوى بن يعقوب بن اسحاق بن ابراهيم بن تارح ( آزر ) بن ناحور بن سا روح بن راغو بن فالخ بن عیبر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح ( علينا ) بن لامك بن متوشلخ بن اخنوخ (ادریس ) بن يرد بن مهلاييل بن قينان بن یانش بن شيث بن آدم ( ایلام ) ( قصص الانبیاء، ابن کثیر ۔ سیرت نبی ، ابن ہشام )
حضرت موسی کا مختصر تعارف :
حضرت موسی اللہ تعالی کے انبیاء میر میں سے وہ مشہور نبی تھے جن کے ذریعے اللہ تعالی نے بنی اسرائیل ( اولاد یعقوب) کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلائی ۔ آپ کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوگا بد تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ کا ذکر خیر قرآن مجید میں کئی سورتوں میں کیا ہے
بنی اسرائیل ( اولاد یعقوب) سے سلطنت کا خاتمہ
حضرت یوسف علیہ کے مصر پر حکمران بننے کے کچھ عرصہ بعد حضرت یعقوب علی ایلام اپنے پورے خاندان سمیت مصر میں آکر آباد ہو گئے اور پر امن زندگی گزارنے لگے۔ حضرت یعقوب علی کے بیٹوں کو اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں سے نوازا اور ان کی نسلوں کوخوب بڑھایا۔ آپ کی اولاد سے جو لوگ وجود میں آئے انہیں بنی اسرائیل کہا جاتا ہے جن کا قرآن مجید میں کئی مقامات پر ذکر آیا ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ اس دنیا سےرخصت ہوئے تو بنی اسرائیل کو بہت زیادہ صدمہ ہوا ، اہل مصر نے انہیں تسلی دی الس حالت میں ان کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا۔ کچھ عرصہ تک تو اہل مصر نے اپنے قول کا پاس رکھا اور بنی اسرائیل کے عزت و شرف کو تسلیم کیا لیکن رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کے علما نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا چھوڑ دی اور دنیا کے حصول میں مگن ہو گئے اور لوگ بھی اللہ تعالی سے دور ہو کر امیر سے حسد اور غریب کو حقیر سمجھنے لگے۔ بنی اسرائیل کے اس طرز عمل کو دیکھ کر اہل مصر بھی بنی اسرائیل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے یہاں تک کہ بعض اہل مصر نے یہ ذہن بنا لیا کہ مصر میں بادشاہت کا حق صرف ہم اہل مصر کو ہے۔ بنی اسرائیل تو کنعان سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں انہیں ہم پر بادشاہت کرنے کا کوئی حق نہیں ۔
مصر میں فرعون کی بادشاہت :
جب بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں شروع کر دیں تو اہل مصر کے دلوں سے ان کا مقام و مرتبہ ختم ہو گیا اور وہ بنی اسرائیل سے نفرت کرنے لگے۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی حمایت ختم کر کے اپنی ہی قوم کے ولید بن ریان نامی آدمی ( جو فرعون کے لقب سے مشہور ہوا) کی حمایت کرنا شروع کر دی جو بہت جلد مصر کا بادشاہ بن گیا۔ وہ بہت بڑا ظالم متکبر اور جاہر تھا اور اپنی قبطی قوم کو بادشاہوں کی قسم اور بنی اسرائیل کو غلام قوم سمجھتا تھا۔ وہ اپنی حکومت اور بادشاہت کے غرور میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس نے اپنے رب اور معبود ہونے کا دعوی کر دیا اور بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا
فرمان الہی ہے :۔ (ترجمہ)
اور ( فرعون نے ) کہا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ۔ ( النزعت 79 آیت (24) بے شک فرعون نے زمین ( مصر ) میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی اور اس نے وہاں کےلوگوں کے کئی گروہ بنا رکھے تھے اور ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو بہت کمزور کر رکھا تھا ۔ (القصص 28 : آیت (4)
فرعون کا خواب :
حضرت موسیٰ کی ولادت سے پہلے فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آئی اور مصر کے تمام قبطیوں کے گھر جلا گئی لیکن بنی اسرائیل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ بیدار ہونے کے بعد وہ بڑا خوفزدہ تھا کہ اس کی تعبیر کیا ہو سکتی ہے ؟ اس نے اپنے کاہنوں، عالموں اور جادوگروں کو جمع کیا اور اس کی تعبیر پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا لڑکا پیدا ہو گا کہ اس کے ہاتھوں اہل مصر ( قبطی ) تباہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ فرعون نے اس وقت بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کا حکم جاری کر دیا لیکن تقدیر کے آگے تدبیر نہیں چلتی ۔
حضرت موسیٰ علیہ کی انتہائی کشیدہ حالات میں ولادت :
فرعون اپنے خواب کی وجہ سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا، اسے اپنی حکومت کے زوال کاخطرہ تھا اس لئے اس نے ہر ممکن کوشش کی کہ بنی اسرائیل میں کوئی ایسا لڑکا پیدا ہی نہ ہو جو میری حکومت کے زوال کا سبب ہے۔ اس نے کچھ مردوں اور عورتوں کی یہ ذمہ داری لگادی کہ بنی اسرائیل کی عورتوں میں سے جو بھی اُمید سے ہو اس کے پاس جائیں اور پیداہونے والے بچے کے بارے میں معلومات رکھیں ۔ اگر لڑکا پیدا ہو تو اسے قتل کر دیں اور لڑکی ہو تو اسے باقی رہنے دیں ۔ ادھر فرعون کی یہ چالیں تھیں ادھر تقدیر الہی اس پر نہیں رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ اے ظالم بادشاہ ھے اپنی افواج کی کثرت، اپنے اقتدار کی طاقت اور وسیع سلطنت پر غرور ہے لیکن اس عظیم خالق کی طرف سے تو غافل ہے کہ جس کی تقدیر کا کوئی توڑ نہیں ، جس کے فیصلوں کو رد کرنے کی کسی میں مجال نہیں۔ وہ ذات یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ جس بچے سے تو خوفزدہ ہے ، جس کے لئے تو نے بے شمار معصوم بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے وہ تیرے ہی گھر میں پرورش پائے گا اور تیری دنیا اور آخرت کی تباہی اس کے ہاتھوں ہو گی، تجھے معلوم ہو جائے گا کہ آسمان و زمین کے مالک ہی کی یہ شان ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، اس کے پاس مکمل قدرت ہے۔ حضرت موسی کی ولادت بھی اسی سال ہوئی جس سال بچے قتل کئے جا رہے تھے۔ اللہ تعالی کی رحمت جوش میں آئی اور اللہ عز وجل کو ان کمزور بندوں پر رحم آیا جو ابراہیم خلیل االلہ کی نسل میں سے ہیں چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں فرعون کی غلامی سے نجات دلا کر آزادی جیسی عظیم نعمت سے نوازا