آنسوؤں سے گھاس اگ گئی
حضرت مجاہد کہتے ہیں حضرت داؤد چالیس دن برابر سجدے میں پڑے روتے رہے حتی کہ ان کے آنسوؤں سے گھاس اگ آئی۔ اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئی: اے داؤد تم کیوں روتے ہو اگر تم ننگے، بھوکے، پیاسے ہو تو بتلاؤ تاکہ میں کپڑا اور پانی بھیجوں ۔
اس پر انہوں نے ایسا سانس لیا کہ ان کے سانس کی گرمی سے لکڑی میں آگ لگ گئی اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ انہوں نے عرض کی کہ اے اللہ میرا گناہ میری ہتھیلی پر نقش فرمادے تاکہ میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں ۔ اللہ تعالی نے ان کی درخواست قبول کر لی پھر جب وہ کھانے پینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو اپنے اس نقش کو دیکھ کر روتے اور اتنا کہ پیالہ جو پانی سے نہ بھرا ہوتا ان کے آنسوؤں سے بھر جاتا۔ روایت میں آتا ہے کہ داؤد اس قدر روئے کہ ان کی طاقت زائل ہو گئی۔
عرض کی اے ارحم الرحمین آپ میرے رونے پر رحم نہیں فرماتے؟ ارشاد ہوا اے داؤ تم رونے کا تو ذکر کرتے ہو اور تمھیں خطائیں بھول گئیں۔ عرض کی: اے اللہ ! میں اپنی خطاؤں کو کیسے بھول سکتا ہوں کہ اس سے پہلے میں جب زبور پڑھتا تھا تو نہر میں بہتا ہوا پانی تھم جاتا تھا اور چلتی ہوئی ہوائیں رک جاتی تھیں اڑتے ہوئے جانور میرے سر پر اور وحشی جانور میری محراب میں جمع ہو جاتے تھے اب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں اے اللہ ! یہ کیسی وحشت اور کیسی نفرت ہے؟
ارشاد باری تعالی ہوا:
اے داؤد وہ طاعت و بندگی کا انس تھا اور یہ معصیت کی وحشت ہے۔ اے داؤد آدم میرا بندہ تھا، اسے میں نے اپنے دست لطف سے پیدا کیا، اپنی روح اس میں پھونکی ، ملائکہ کو اس کے سجدے کیا حکم دیا، کرامت و بزرگی کا لباس اسے پہنایا اور وقار کا تاج اس کے سر پر رکھا ، اس نے اپنی تنہائی کا گلہ کیا تو میں نے حوا کو پیدا کیا اور دونوں کو بہشت میں رکھا۔ اس نے ایک خطا کی تو میں نے اسے ننگا کر کے اپنی بارگاہ سے زمین پر بھیج دیا اے داؤ کو تو سن اور حق کو سمجھ کہ تو ہماری طاعت و بندگی کرتا تھا تو ہم تیرے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتے تھے۔ تو نے جو سوال کیا ہم نے پورا کیا، تو نے گناہ کیا ہم نے مہلت دی۔ اس کے باوجود اب بھی توبہ کر کے ہماری طرف رجوع کرو گے تو ہم قبول کر لیں گے۔
چالیس ہزار میں سے تیس ہزار مخلوق کی خوف خدا سے ہلاکت
حضرت سخی بن کثیر کہتے ہیں کہ حضرت داؤد جب اپنے گناہ پر نوحہ کرتے تو ہفتہ ہفتہ بھر کچھ نہ کھاتے اور اپنی حرم میں تشریف نہ لے جاتے پھر صحرا میں چلے جاتے اور حضرت سلیمان سے منادی کا حکم کرتے اور آواز لگاتے کہ اللہ کے بندو جو داؤد کا نوحہ سننا چاہتا ہے وہ آجائے ۔ تو بستیوں سے آدمی ، آشیانوں سے پرندے، بیابانوں
اور پہاڑوں سے وحشی جانور اور درندے وہاں جمع ہو جاتے۔
حضرت داؤد پہلے اللہ تعالی کی ثناء بیان فرماتے تمام مخلوق فریاد کرتی پھر جنت و دوزخ کا حال بیان کرتے پھر اپنے گناہ پر نوحہ کرتے حتی کہ بہتیری مخلوق خوف و ہراس سے مرجاتی، تب حضرت سلیمان ان کے کے پاس جا کر عرض کرتے :- بابا جان بس کیجئے کہ بہت سی مخلوق تاب نہ لا کر ہلاک ہو گئی اور آواز لگاتے کہ اپنے مردے اٹھا کر لے جاؤ لوگ انہیں اٹھا کر لے جاتے۔ حتی کہ ایک دن چالیس ہزار مخلوق جو اس مجلس میں جمع تھی اس میں سے تیس ہزار مر گئے۔
حضرت داؤد کی دو لونڈیاں تھیں، ان کا یہی کام تھا کہ خوف کے وقت حضرت کو سہارا دے کر رکھتیں، تاکہ ان کے اعضاء جوڈر کے سبب مسلسل کپکپی اور رعشہ کا شکار تھے اکھڑ نہ جائیں۔
40 سال تک روتے رہے
مجاہد نے کہا، جب داؤد سے خطا ہوئی تو آپ چالیس روز تک سجدے میں پڑے رہے، یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے سبزی اگ آئی، جس نے سر کو چھپا لیا اے رب ! پیشانی زخمی ہو گئی اور آنکھیں خشک ہو گئیں۔ پھر پکارا ان کو آواز آئی کیا تو بھوکا ہے کہ تجھے کھانا دیا جائے ؟ یا بیمار ہے کہ شفاء دی جائے یا مظلوم ہے کہ تیری مدد کی جائے؟ تو
آپ کے منہ سے ایسی آہیں نکلیں کہ ساری سبزی میں ہیجان پیدا ہو گیا اس وقت اللہ نے ان کو معاف کر دیا ۔ کہا گیا ہے کہ داؤد کو بیمار سمجھ کر لوگ بیمار پرسی کے لئے آتے حالانکہ ان کو صرف اللہ کا ڈر ہوتا تھا کوئی بیماری نہ ہوتی تھی۔
حضرت داود اور حالت خوف خدا
حضرت داؤد فرماتے تھے:
اے میرے پروردگار! مجھے رونے والی ایسی آنکھیں عطا فرماجو آنسو بہا کر روئیں اور آپ کے خوف سے پاک کر دیں پہلے اس کے آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگارے بن جائیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام پر خشیت الہی کا اثر
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ داؤد ا نے بھی اپنا سر مارے حیا کے آسمان کی طرف نہیں اٹھایا یہاں تک کہ وفات پائی اور دعا میں یوں عرض کیا کرتے :-
الہی ! اگر میں اپنی خطا یاد کرتا ہوں تو زمین باوجود وسعت کے مجھ پر تنگ ہو جاتی ہے۔ اور جب تیری رحمت کو یاد کرتا ہوں تو جان میں جان آجاتی ہے۔ تو پاک ہے، بار خدایا ! میں تیرے بندوں میں سے جو طبیب ہیں ۔ ان کے پاس گیا کہ میری خطا کا علاج کریں وہ سب کے سب تجھے ہی بتلاتے ہیں تو خرابی ہے اس کی جو تیری رحمت سے آس توڑے۔
حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک روز حضرت داؤد نے اپنا گناہ یاد کیا۔ اسی وقت چیختے اپنا ہاتھ سر پر رکھے اٹھے یہاں تک کہ پہاڑوں میں چلے گئے ۔ آپ کے گرد درندے اکٹھے ہوئے ۔ آپ نے فرمایا: تم چلے جاؤ مجھے تم سے کچھ مطلب نہیں ، مجھ کو وہی چاہیئے جو اپنی خطا پر رودے اور میرے سامنے روتا ہی آئے اور جو خطا وار نہیں اس کا داؤد خطاوار کے پاس کیا کام ہے؟
اور جب آپ کو کوئی کثرت گریہ سے منع کرتا تو فرماتے: مجھے رونے دو پہلے اس کے کہ رونے کا دن ہاتھ سے جاتا رہے اور ہڈیاں جل جائیں اور آتشیں بھڑک اٹھیں اور پیشتر اس کے کہ میں ایسے فرشتوں کے حوالے ہوں۔