آدم سے االلہ تعالیٰ کا بلا واسطہ کلام
جب حضرت آدم سے لغزش ہوئی تو آپ حیاء کی وجہ سے بھاگنے لگے۔ تو اس وقت االلہ تعالی نے فرمایا
ونادا هما ربهما الم انهكما عن تلكما الشجره واقل
لكما ان الشيطان لكما عدومبين
االلہ تعالی نے ان دونوں ( آدم و حوا) کو پکارا اور یہ فرمایا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت کے پھل کھانے سے روکا ہوا نہیں تھا ؟ اور کیا تم کو یہ اطلاع دے کر خبر دار نہیں کر دیا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے، اس سے بچنا ہو گا۔
حدیث میں اس کی تفصیل یہ ہے ، ابی بن کعب مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ االلہ تعالی نے حضرت آدم کو ایک لمبا آدمی بنایا تھا ( قد کا طول ساٹھ ہاتھ اور عرض سات ہاتھ تھا ) سر پر بہت بال تھے جیسے کھجور کا درخت، جب انھوں نے درخت کو چکھا، جس سے االلہ نے منع فرمایا تھا تو بدن پر سے کپڑے گر گئے ستر نظر آنے لگا، جنت میں دوڑتے پھرتے تھے۔ پھر ایک درخت میں بال الجھ گئے ۔ یہ اس سے چھڑانے لگے۔ تب االلہ تعالی نے پکارا اے آدم! کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے؟ کہا نہیں اے رب ! میں شرمندہ ہوں۔ راوی ابن ابی حاتم
آنسوؤں کے پانی سے پھول کی پیدائش
حضرت آدم اپنی لغزش پر اس قدر روتے ہیں کہ آپ کے آنسوؤں سے چھوٹے چھوٹے چشمے پیدا ہو گئے اور اس پانی سے حق تعالی نے خوشبودار پھول پیدا فرمائے ۔ االلہ تعالی نے آپ کی ندامت اور گریہ وزاری سے آپ کی عبدیت کو پختہ فرما کر اس درجہ پر پہنچا دیا جس درجہ عبدیت پر تاج خلافت عطا ہونا علم الہی میں تجویز ہوا تھا۔
ایک لغزش پر تین سو سال ندامت سے رونا روتے حضرت سیدنا آدم اپنی لغزش کو یاد کرتے ہوئے ایک طویل عرصہ تک رہے یہاں تک کہ ندامت کے باعث آسمان کی طرف نگاہ بھی نہ کی۔ فرشتے آپ کی زیارت کے طالب ہوئے تو حضرت جبرائیل پیام الہی لئے حاضر ہوئے اور کہا االلہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ! ذرا آسمان کی طرف نگاہ تو اٹھائیے نیز آج تک او پر نظر نہ کرنے کا سبب کیا ہے؟
آپ نے فرمایا: میں اس لغزش کے باعث سر او پر اٹھانے میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں
ایماندارو! ذرا غور کرو ۔ قیامت کے روز گناہوں کے باعث جو حال ہوگا، اس کے بارے االلہ تعالی قرآن کریم میں یوں فرماتے ہیں قیامت کے دن بندے اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہونگے ۔ وہب نے کہا: آدم جنت سے نکلنے کے بعد تین سو سال تک روئے اور لغزش ہو جانے کے بعد کبھی آسمان کی طرف اپنا سر نہ اٹھایا۔