You are currently viewing حضرت ابوعبیدہ ؓ سپہ سالار

حضرت ابوعبیدہ ؓ سپہ سالار

رسول اللہ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے فوری بعد حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جب اولین جانشین کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں تونازک ترین صورتِ حال اور اندرونی وبیرونی خطرات کے باوجود اس لشکرکوملکِ شام کی جانب روانہ فرمایا۔اس کے بعدسن بارہ اور پھرسن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے مختلف اوقات میں مختلف افراد کی زیرِقیادت متعددلشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کئے،اسی دوران ایک لشکرحضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کی زیرِقیادت بھی روانہ کیاگیا۔ جو کہ باقی لشکروں کے ساتھ جا ملا اس کے بعدحضرت خالدبن ولیدؓ کی زیرِقیادت مسلمانوں نے رومیوں کے خلاف بڑی یادگار جنگیں لڑیں جن میں سب سے زیادہ تاریخی اورفیصلہ کن قسم کی جنگ’’یرموک‘‘تھی جوسن تیرہ ہجری میں لڑی گئی،اورجو مسلمانوں کے ہاتھوں سلطنتِ روم کے ہمیشہ کیلئے زوال کاپیش خیمہ ثابت ہوئی، اس تاریخی جنگ کے موقع پراسلامی لشکرچوبیس ہزار جبکہ رومیوں کالشکرایک لاکھ بیس ہزار سپاہیوں پرمشتمل تھا ۔

انہی دنوں جنگِ یرموک سے کچھ قبل اُدھر مدینہ میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کاانتقال ہوگیا جس پران کی وصیت کے مطابق خلافت کی ذمہ داریاں حضرت عمربن خطاب ؓ نے سنبھال لیں جوکہ خودرسول اللہ اور پھرخلیفۂ اول کے دور میں بھی مشاورت کے فرائض انجام دیتے چلے آرہے تھے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ملکی نظم ونسق سے متعلق متعدد امورمیں انہوں نے کچھ تبدیلیاں کیں اسی ضمن میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی کہ ملکِ شام میں اسلامی لشکرکے سپہ سالارحضرت خالدبن ولیدؓ کوان کے اس منصب سے معزول کرکے ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہ ؓ کوسپہ سالارمقررکرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عمربن خطاب ؓ نے حضرت ابوعبیدہ ؓ کے نام خط تحریرکیا جس میں انہیں حضرت خالدبن ولیدؓ کی جگہ بطورِسپہ سالار ذمہداریاں سنبھالنے کی تاکید کی۔

arabic-man-chalo-masjid-com-5

جب یہ خط حضرت ابوعبیدہ ؓ کو موصول ہوا اُن دنوں مسلمان حضرت خالدؓ کی سپہ سالاری میں سلطنتِ روم کے خلاف انتہائی نازک اورفیصلہ کن جنگ’’یرموک‘‘کیلئے تیاریوں میں مشغول تھے تیاری آخری مراحل میں تھی اورجذبات عروج پرتھے لہٰذا خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ کی طرف سے یہ مکتوب ملنے کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ بڑی کشمکش میں مبتلا ہوگئے کیونکہ ایسے نازک موقع پرسپہ سالارِاعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق اس حکم کی تعمیل مناسب نہیں تھی، کیونکہ اس طرح اسلامی لشکرمیں باہم اختلاف و رنجش پیدا ہوسکتی تھی اور اس نازک موقع پریہ معاملہ مسلمان سپاہیوں کیلئے حوصلہ شکنی کاسبب بن سکتاتھا۔چنانچہ اس صورتِ حال کو مدِنظر رکھتے ہوئے حضرت ابوعبیدہ ؓ نے خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب ؓ کی طرف سے موصول شدہ اس مکتوب اور کے بارے میں مکمل خاموشی اختیارکی اوراس معاملے کواس جنگِ یرموک کے بعدتک ملتوی کرنے کافیصلہ فرمایا چنانچہ جنگِ یرموک کاجب اختتام ہوا تب ایک روزحضرت ابوعبیدہ ؓ نے اس بارے میں نہایت ادب اور محبت کے ساتھ حضرت خالدبن ولیدؓ کواطلاع دی اس پرحضرت خالدؓ نے جواب میں نہایت عزت واحترام کے ساتھ انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ابوعبیدہ! اللہ آپ پررحم فرمائے آپ کوجب یہ خط موصول ہواتھا اُسی وقت آپ نے مجھے اس بارے میں مطلع کیوں نہیں فرمادیا؟‘‘جواب میں ابوعبیدہ ؓ نے فرمایا: ’’مجھے یہ بات گوارانہیں تھی کہ میں آپ کواس بارے میں مطلع کرکے آپ کی جنگی تیاریوں کی راہ میں کسی پریشانی کاسبب بنوں ‘اور پھرمزیدفرمایا’’ہمیں کسی دنیاوی شان وشوکت کاکوئی لالچ نہیں ہے،اورنہ ہی یہ دنیا ہمارا مطلوب ومقصودہے ہم سب توبس اللہ کی راہ میں بھائی بھائی ہیں ‘‘۔تب حضرت خالدبن ولیدؓ نے تمام لشکر کومطلع کیاکہ ’’دیکھواب یہ ابوعبیدہ ہمارے نئے سپہ سالارہیں ‘‘۔

نیزاس موقع پرابوعبیدہ ؓ کے ساتھ اپنی عقیدت ومحبت اوروفاداری کے اظہارکے طورپرمزیدیہ الفاظ بھی کہے’’میں نے رسول اللہ کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ’’اس اُمت کے خاص امین ابوعبیدہ ہیں ‘‘۔ اس پرحضرت ابوعبیدہ ؓ یوں گویاہوئے: ’’میں نے رسول اللہ کویوں ارشادفرماتے ہوئے سناہے کہ ’’خالدبن ولیدتواللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوارہیں ‘‘اوریوں اس اہم موقع پران دونوں جلیل القدرشخصیات نے تمام لشکرکے سامنے ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی عقیدت ومحبت اورادب واحترام کے جذبات کااظہارکیا۔ اس کے بعدنئے سپہ سالاریعنی حضرت ابوعبیدہ ؓ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کے خلاف مسلسل پیش قدمی اورفتوحات کایہ سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ سن پندرہ ہجری میں انہی کی سپہ سالاری میں ’’دمشق‘‘فتح ہوا،اورپھر’’فتحِ بیت المقدس‘‘کاانتہائی یادگار اورعظیم الشان واقعہ پیش آیا۔

اس موقع پرجب رومیوں کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں رومیوں کی طرف سے بیت المقدس کی چابی اب مسلمانوں کے حوالے کی جانی تھی، تب خلیفۂ دوم حضرت عمرؓ نے مدینہ میں حضرت علی ؓ کواپنا نائب مقرر فرمایا تھا اور خودمدینہ سے طویل سفرطے کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے تھے۔ اُس وقت حضرت ابوعبیدہ ؓ تمام اسلامی لشکر کے سپہ سالارِاعلیٰ تھے انہیں اَمیرالاُمراء کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا تھا کیونکہ مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں موجوداسلامی لشکروں کے سپہ سالار انہی کی زیرِنگرانی فرائض انجام دے رہے تھے رومیوں کے چھوڑے ہوئے تمام خزانے انہی کے قدموں میں تھے۔ لیکن اس کے باوجود خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطاب ؓ جب مدینہ منورہ سے بیت المقدس تشریف لائے اوروہاں انہوں نے اپنی طرف سے مقرر فرمودہ سپہ سالارِاعلیٰ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ کااس قدرسیدھا سادھا طرزِزندگی دیکھا، توبہت زیادہ متأثرہوئے اورانہیں مخاطب کرتے ہوئے بیساختہ یہ الفاظ کہے اے ابوعبیدہ ! اس دنیاوی خوشحالی وفراوانی نے ہم سب ہی کوبدل کر رکھ دیاہے سوائے آپ کے ‘‘خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطاب ؓ توپہلے ہی اپنے پرانے ساتھی ابوعبیدہ ؓ کی شخصیت سے بہت زیادہ متأثرتھے، اب بیت المقدس سے واپسی کے بعد مزیدمتأثرہوگئے،چنانچہ اب وہ مدینہ میں بسااوقات ان کاذکرِخیرکیاکرتے تھے حضرت ابوعبیدہ ؓ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کے طول وعرض میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی پیش قدمی اورتاریخی فتوحات کایہ عظیم الشان سلسلہ زوروشورکے ساتھ جاری رہا اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا آخرانہی دنوں ملکِ شام میں طاعون کی مہلک وباء پھیل گئی جسے تاریخ میں ’’طاعونِ عمواس‘‘کے نام سے یادکیاجاتاہے یہ جان لیوا مرض بہت بڑے پیمانے پراموات کاسبب بنا دیکھتے ہی دیکھتے ہی بہت بڑی تعدادمیں لوگ اس کی لپیٹ میں آکرلقمۂ اجل بنتے چلے گئے۔

masjid-aqsa-chalo-masjid-com

انہی دنوں ایک روزاچانک حضرت ابوعبیدہ ؓ کوخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب ؓ کی طرف سے خط موصول ہوا، جس میں نہایت سختی کے ساتھ یہ تاکیدکی گئی تھی کہ ’’آپ فوراً جلدازجلدمیرے پاس یہاں مدینہ چلے آئیے کیونکہ ایک بہت ہی ضروری معاملے میں میں آپ سے فوری مشورہ کرناچاہتاہوں ‘‘نیزاس خط میں یہ بھی لکھاتھاکہ’’میرایہ خط آپ کواگرصبح کے وقت موصول ہوتوشام سے پہلے روانہ ہوجائیے اوراگرشام کے وقت موصول ہوتوصبح سے پہلے روانہ ہوجایئے ‘‘حضرت عمربن خطاب ؓ کی طرف سے تحریرکردہ اس خط کامضمون پڑھتے ہی فوری طورپر حضرت ابوعبیدہ ؓ سمجھ گئے کہ ’’نہ ہی کوئی ضروری کام درپیش ہے اورنہ کسی اہم معاملے میں کوئی مشاورت مقصودہے بلکہ بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓمجھے اس مہلک طاعون سے بچاناچاہتے ہیں ‘‘چنانچہ فوری طورپرجواب تحریرکیاکہ’’اے امیرالمؤمنین آپ کاحکم سرآنکھوں پر

آپ سے میری یہ گذارش ہے کہ مجھے میرے ساتھیوں اورسپاہیوں کے ساتھ یہیں رہنے کی اجازت دی جائے میراجینامرنا انہی کے ساتھ ہے باقی اللہ کی مرضی ‘‘مدینہ میں جب حضرت عمرؓ کوحضرت ابوعبیدہ ؓ کی طرف سے تحریرکردہ یہ مکتوب موصول ہوا تواسے پڑ ھ کروہ بیساختہ رونے لگے یہ منظردیکھ کر دیگرصحابۂ کرام پریشان ہوگئے اورحضرت عمرکی یہ کیفیت دیکھ کروہ سمجھے کہ شاید اس خط میں حضرت ابوعبیدہ ؓ کے انتقال کی خبرہے چنانچہ انہوں نے دریافت کیاکہ : ’’کیاابوعبیدہ کاانتقال ہوگیاہے ؟‘‘ اس پرحضرت عمرؓ نے جواب دیاکہ ’’انتقال تونہیں ہوا البتہ اب آثارکچھ ایسے ہی ہیں اس کے بعد مختصر عرصہ ہی گذراتھاکہ حضرت ابوعبیدہ ؓ طاعون کی لپیٹ میں آگئے، چنددن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعدبیت المقدس کے قریب’’بَیسان‘‘ نامی بستی میں سن اٹھارہ ہجری میں اٹھاون سال کی عمرمیں امین الامہ حضرت ابوعبیدہ ؓ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔اللہ تعالیٰ جنت الفردوس ان کے درجات بلندفرمائیں ۔