You are currently viewing حدیث ؛نماز کا بیان

حدیث ؛نماز کا بیان

باب: اس بیان میں کہ بوقت ضرورت گھروں میں جائے نماز (مقرر کر لینا جائز ہے)۔

ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رسول اللہ کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ! میری بینائی میں کچھ فرق آگیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جاسکتا یا رسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور (کسی جگہ ) نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ  نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالی میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ (دوسرے دن) رسول اللہ اور ابو بکر صدیق جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کسی حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ (اس جگہ ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ (نفل) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا ( یہ کہا) این دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے اللہ اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اور اس سے مقصود خالص اللہ کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے لا إله إلا اللہ کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کردی ہے۔ ابن شباب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حسین بن محمد انصاری سے جو بنو سالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں (اس حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔

 بحوالہ صحیح بُخاری

حدیث نمبر ٤٢٥ حدیث صحیحہ

Leave a Reply