کیا روزہ بھی دین اسلا م کے ارکا ن میں سے کو ئی رکن ہے ؟
جی ہا ں دین ارکا ن میں سےایک بہت بڑا رکن ہے ۔ اس سے نفس اما رہ بدی کا حکم دینے والا ہے مغلو ب اور زیر ہو تا ہے یہ ابرار اور مقر بین کی عبا دت اور ریا ضت ہے اس کے ذر یعہ نیکی اور حسنا ت کی ملکی قو ت پیدا ہو تی ہے خدا کا قرب اور وصل حا صل ہو تا ہے ۔ نہ کھانا پینا یہ اللہ کی صفت ہے پس روزاہ دا ر اللہ تعالیٰ کی صفت سے متصب ہو کر قرب حا صل کر تا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعا لیٰ کہ ہر صفت سے متخلق ہو نے والا قرب حا صل کرتا اور محبو ب بنتا ہے دیکھو حضر ت ابر اہیم علیہالسلام کو ار شا د ہوتا ہے کہ اے ابر ا ہیم میں علیم ہو ں اور ہر علیم کو دو ست رکھتا ہوں ۔ یعنی علم میری صفت ہے اور جو میری صفت پر ہے میرا محبوب ہے روزہ با طن کو منور کرتا ہے اور حضور مع اللہ کے لیے قلب کو فا رغ کرتا ہے عفت بخشتا ہے اور عبا دت میں حلا وت و واورلذت پیدا کرتا ہے اس کے علا وہ روزہ میں اور بہت سے فوائد ہیں ۔
آپ تو یہ فر ما تے ہیں کہ روزہ میں بہت فوا ئد ہیں اور بعض لو گ معا ذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ روزہ رکھے جس کے گھر کھا نے کو کچھ نہ ہو گویا ان کے نز دیک سوائے فا قہ کے کو ئی فا ئدہ نہیں ؟
یہ کہنا ہے کہ روزہ وہ رکھے جس کے یہاں کھا نے کو کچھ نہ ہو یہ کلمہ کفریہ ہے ایسے کہنے والے پر لا زم ہے کہ تو بہ کر کے تجدید اسلا م اور تجد ید نکا ح کرے یہ احکا م الہٰی سے استہز ا اور مذاق ہے ایسا کہنے والا کا فر ہو جا تا ہے اس کی کو ئی عبا دت مقبو ل نہیں جب تک کہ تو بہ نہ کرے خو ب غو ر سے سنو کہ روزہ میں جسما نی اور روحا نی اور بے شما ر اخلا ق اور ایما نی فو ائد ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کرم اور احسا ن ہے کہ اس نے روزہ مقرر کر کے ہم کو ان کے فو ائد سے متمتع ہو نے کا مو قع دیا ۔ اللہ تعالیٰ نی مسلما نوں کو چو پ یوں کی طر ح نہین چھوڑا کہ وہ چرنے اور کھانے ہی میں مصروف رہیں بلکہ ان کے کھا نے پینے کو بھی تحت حکم رکھا ہے جو اس حکم کے خلا ف کر تے ہیں وہ بہام صفت ہیں کہ اپنا مقصد زندگی جا نوروں کی طر ح کھانے پینے کو سمجھتےہیں ۔ مگر جا نوروں سے مو ا خذہ نہیں ہو گا اورا انسا ن پر حرام میں عذاب ہے اور مکروہ میں عتا ب اور حلا ل میں طو ل حسا ب یہ کا فر کا نشا ن ہے کہ حلا ل و حرا م کی تمیز اٹھا کر پوری حرص کے سا تھ جا نو روں کی طر ح کھا تا ہے اور کا فر بر تتے ہیں اور کھا تے ہیں جیسے چو پا ئے کھا ئیں البتہ مسلام کھا نے پینے میں بھی خدا کا محکوم اور عبد ہے اس عبدت کا اظہا ر روزہ کے زریعہ ہو تا ہے یہی لو گ شرہ حرص سے پا ک ہیں ۔ جو لو گ مشل بہا یم ہیں ان پر روزہ کا حکم شا ق ہے نہ کہ ایما ن والوں پر روزہ وہ عبا دت ہے جس کو انبیا ء کرام اور حضور کرام ﷺ نے بیحد محبوب ہے ۔
روزہ اور جسما نی صحت اور دیگر فوائد
کی روزہ میں علاوہ دیگر فوائد کے جسما نی صحت اور عا فیت بھی ہے ؟
روزہ جسما نی صحت وعا فیت کی حفا ظت کے لیے عجیب و غریب تا ثیر رکھتا ہے اکثر بیما ریا ں کھا نے پینے کی کثرت سے پیدا ہو تی ہیں ۔ جب سے کھا نا پینا زیا دہ ہو گیا ہے اور کھا نے کی اتنی حرص بڑ ھ گئی ہےکہ لو گ رمضان شریف کے روزے بھی کھا جا تے ہیں تو بیما ریا ں بھی زیا دہ بڑ ھ گئیں ۔ کھا نے پینے سے جو فضلا ت رد عمل بدن میں پیداہو تا ہے جن سے طرح طرح کی بیما ریاں پیدا ہو تی ہیں روزہ ان اخلا ط فا سد ہ اور مو اد ردیہ کو تحلیل کرتا ہے اور تز کیہ کر کے بدن انسا نی کو بیما ریوں سے محفو ظ رکھتا ہے ۔ ہر چیز کی زکو ۃہے اور جسم کی زکو ۃ روزہ ہے اس حدیث میں اسی بد نی صحت و عا فیت کی طر ح اشا رہ ہے نیز زکوۃ مالی کی طر ح یہ زکوۃ بدنی بھی مو جب اجر ہے ۔ محمد بن یمانی نے چھ با توں کا سوال چھ مقام پر کیا ہر جگہ سے ایک ہی جوا ب ملا
اطبا ءسے سوال کیا کہ ایسی چیز بتا و جس میں بدن کی شفا ء اور صحت کی حفا ظت کے لیے بہترین ضما نت ہو انہو ں نے کہا کم کھا نا اور بھوک ہے ۔
علامہ سے پو چھا حا فظ کی قا ت اور یس دا شت کے لئے سب سے بہترین چیز بتلا و جس سے علوم و فنو ن محفو ظ رہ سکیں فرما یا کم کھا نا اور بھو ک ہے ۔
زاہدوں سے سوال کیا کہ دنیا کی لذت سے بے ر غبتی پر مدد کس چیز سے حا صل ہو تی ہے فرما ا وہ کھا نا اور بھو ک ہے ۔
حکما اور وعقلا سے پو چھا کہ جو چیز عقل و فہم کو زیا دہ کرے وہ کیا چیز ہے فرما یا کم کھانا اور بھو ک ہے ۔
عبدوں سے پو چھا کہ عبا دت کی طرف انسا ن کو ما ئل کر نیوا لی چیز کیا ہےفرما یا کم کھا نا اور بھو ک ہے ۔
سلا طین اور با د شا ہو ں سے پو چھا کہ وہ عمد ہ اور بہتر شے کیا ہے جو کھا نے کو لذ یذ تر لذ ی بناتا ہے فر ما یا کم کھا نا اور بھوک ہے ۔
یہ جملہ فوائدسن کر ابن یمانی نے فیصلہ کیا کہ اس بھو ک اور پیا س کو روزہ جیسی محبو ب عبا دت کی شکل کیو نہ اختیا رکیا جا ئے تا کہ مذ کو ر ہ بالافوا ئد کے سا تھ ثواب عبادت بھی حا صل ہو چنا چہ اسی دن سے محمدبن یما نی ہمیشہ روزہ رکھنے لگے اور صائم الد ہر ہو گے اکثر وبشتر آنحضرت ﷺ نے بھو ک مین رہنا پسند کیا حتی کہ شکم مبارک پر پتھر تک با ندھے ۔ بھوک بڑ ی دولت ہے روزہ کی روح ہی بھوک ہے ۔ تفسیر روح البیا ن میں ہے کہ بھوک سے روایت الہیٰ کی سعادت بھی حا صل ہے حضر ت عیسٰی علیہ السلام کو خطا ب ہو ا بھوکے رہو ہم کو دیکھو گے ۔
۔ کتا ب الصیا م سے اقتبا س