You are currently viewing حضرت عمر کی زندگی کے ایما ن افروز واقعات

حضرت عمر کی زندگی کے ایما ن افروز واقعات

حضرت ابوذر غفاری سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سیدنا عمر فاروق کے ہمراہ جا رہا تھا کہ راستے میں ایک نو جوان آپ کے پاس سے گزرا۔ اس نوجوان نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے فرمایا یہ بڑا ہی نیک شخص ہے۔

حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں اس نوجوان کے پیچھے گیا اور اس سے کہا کہ وہ میرے حق میں دعائے خیر کرے۔ اس نوجوان نے کہا آپ   صحابی رسول اللہ صلی اللہ وسلم ہیں اور آپ ہی کو حضور نبی کریم صلی اللہ وسلم کی صحبت حاصل رہی ہے میں آپ کے لئے کیسے دعا کر سکتا ہوں

حضرت ابوذر غفاری فرماتے ہیں کہ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ تمہارے بارے میں حضرت سیدنا عمر نے کہا ہے کہ یہ شخص بڑا نیک ہے اور حضور نبی کریم  نے حضرت سیدنا عمر فاروق کے بارے میں فرمایا کہ عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا گیا ہے۔

حضور نبی کریم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام کی جماعت میں اپنےخواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں خواب کی حالت میں جنت کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک عورت ایک محل کے باہر وضو کر رہی ہے، میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ محل عمر کا ہے۔ پھر حضور نبی کریم نے حضرت سیدنا عمر فاروق کو مخاطب کرتے

ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی اس لئے میں وہیں سے لوٹ آیا۔ آپ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تو رو پڑے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ   آپ سے غیرت کروں گا ؟

umer-bin-farooq-chalo-masjid-com

حضرت زید بن ثابت سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے ایک قاصد کو میرے پاس بھیجا۔ قاصد نے پیغام دیا اس وقت آپ کے پاس حضرت سیدنا عمر فاروق بھی تشریف فرما ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے دوران بے شمار حفاظ کرام شہید ہو گئے ہیں اور اگر اسی طرح حفاظ کرام شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے ان کا مشورہ ہے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق قرآن مجید کو جمع کریں۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق نے ان سے کہا کہ میں وہ کام ہرگز نہ کروں گا جو میرے آقا حضور نبی کریم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق صلی اللہ کا سینہ کشادہ کیا اور ان کی رائے بھی حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی ہو گئی۔

حضرت زید بن ثابت فرماتےہیں اللہ کی قسم ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیا جاتا تو میں اسے قرآن مجید کو جمع کرنے سے زیادہ آسان سمجھتا۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق فرماتے یہ کار خیر ہے اور تم اسے انجام دو گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی میری رائے بھی آپ اور حضرت سیدنا عمر فاروق جیسی کر دی اور میں نے کھجور کے پتوں، شانہ کی چوڑی ہڈیوں، چڑے کے اوراق اور صحابہ کرام کے سینوں سے قرآن مجید کو اکٹھا کیا اور ایک صحیفہ کی صورت میں مرتب کیا۔ یہ صحیفہ آپ کے پاس محفوظ رہا۔ آپ کے بعد وہ نسخہ حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس گیا اور ان کی شہادت کے بعد یہ نسخہ حضرت سیدنا عثمان غنی کے پاس پہنچا اور انہوں نے اس کی مختلف نقول کروا کر انہیں مختلف علاقوں میں روانہ کیاکسی چیز کے لئے دست دراز نہ ہوں گا

حضرت عطار بن یسار فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس کچھ عطیہ بھیجا جسے آپ نے واپس کر دیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ  سے دریافت کیا کہ تم نے مال کو واپس کیوں کیا؟ آپ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ کہ آپ  نے فرمایا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے بھلائی اس میں ہے کہ کسی سے کوئی چیز نہ لیں؟ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ بات میں نے سوال کرنے کو کہی تھی لیکن جو کچھ بلا سوال کے ملے وہ رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے۔ آپ نے عرض کیا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میری جان ہے میں کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہ کروں گا اور جب کبھی کوئی چیز میرے پاس بغیر مانگے آئے گی میں اسے ضرور لے لوں گا ابو بکر رضی اللہ عنہ سےسبقت لے جانا ممکن نہیں

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق کے دور خلافت میں ایک بوڑھی نابینا عورت مدینہ منورہ ہ کے نواح میں رہتی تھی۔ وہ بوڑھی نابینا عورت اس قدر کمزور تھی کہ گھر کے معمولی کام کاج بھی نہ کر سکتی تھی۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ کو جب اس بوڑھی نا بینا عورت کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ وہ جا کر اس بوڑھی نابینا عورت کے گھر کا کام کاج کرکے آئیں جب آپ اس بڑھیا کے گھر پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ اس نابینا بڑھیا کے گھر کی صفائی ہوئی تھی، گھر میں پانی بھی بھرا ہوا تھا۔ آپ نے اس بوڑھی نابینا عورت سے دریافت کیا تو اس نے کہا مجھے معلوم نہیں کوئی شخص صبح سویرے آتا ہے اور میرے گھر کی صفائی کرتا ہے۔ پانی بھرتا ہے اور مجھے کھانا کھلا کرچلا جاتا ہے۔

hazrat-umer-bin-khatab-chalo-masjid-com

حضرت سیدنا عمر فاروق نے اس نابینا بڑھیا کی بات سننے کے بعد ارادہ کیا کہ وہ اگلے روز علی اصبح آئیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کون شخص ہے جو اس نا بینا بڑھیا کے گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ جب آپ اگلے روز نماز فجر کے بعد آئے تو وہ شخص اس نابینا بڑھیا کے گھر کی صفائی اور پانی بھر کے جا چکا تھا۔ آپ نے ارادہ کیا کہ اب میں اگلے روز نماز فجر سے بھی پہلے آؤں گا اور دیکھوں گا کہ وہ شخص کون ہے؟

اگلے روز حضرت سیدنا عمر فاروق نماز فجر سے قبل اس نا بینا بڑھیا کے گھر آئے تو آپ نے دیکھا کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اس نابینا بڑھیا کے گھر کی صفائی کر رہے ہیں۔ صفائی کرنے کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضیاللہعنہ نے پانی بھرا اور پھر اس نا بینا بڑھیا کو کھانا کھلایا اور چلے گئے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا۔ اللہ کی قسم ! ابو بکر سے سبقت لے جانا ممکن نہیں ۔“