ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے والد اسلم نے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو ایک سفر میں جا رہے تھے۔ عمر بن خطاب ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے کچھ پوچھا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ عمر ؓ نے پھر پوچھا آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ پھر پوچھا اور جب اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں دیا تو عمر ؓ نے (اپنے آپ کو) کہا تیری ماں تجھ پر روئے تو نے نبی کریم ﷺ سے تین مرتبہ عاجزی سے سوال کیا اور نبی کریم ﷺ نے کسی مرتبہ بھی جواب نہیں دیا۔ عمر ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اپنی اونٹنی کو دوڑایا اور لوگوں سے آگے ہوگیا (آپ کے برابر چلنا چھوڑ دیا) مجھے خوف تھا کہ کہیں اس حرکت پر میرے بارے میں کوئی آیت نازل نہ ہوجائے ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا۔ عمر ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سوچا مجھے تو خوف تھا ہی کہ میرے بارے میں کچھ وحی نازل ہوگی۔ عمر ؓ نے بیان کیا چناچہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے آپ کو سلام کیا (سلام کے جواب کے بعد نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے عمر! آج رات مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ پسند ہے جن پر سورج نکلتا ہے۔ پھر آپ نے سورة إنا فتحنا لک فتحا مبينا کی تلاوت فرمائی۔
صحیح بُخاری
باب فضائلِ قرآن
حدیث نمبر ٥٠١٢ حدیثِ صحیحہ