وحی کے لئے آپ کو تیا ر کر نے کے لئے اللہ تعا لیٰ نے فر شتے اسرا فیل کو آپ ﷺ کا ہم دم بنا دیا آپ ان کی مو جو دگی کو محسوس تو کر تے تھے مگر انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے اس طرح آپ کو نبو ت کی خو شخبری دی جا تی رہی آپ کو وحی کے لئے تیا ر کیا جا تا رہا اللہ نے آپ کے دل میں تنہا ئی کو شو ق پیدا فر ما دیا چنا نچہ آپ کو تنہا ئی عزیز ہو گئی آپ غا ر حرا میں چلے جا تے اس پہا ڑ سے آپ کو ایک با ر آواز بھی سنا ئی دی تھی ہما ری میں طرف تشر یف لا ئیں اللہ کے رسول ۔
غا رے حرا میں قیا م
اس غا ر میں آپ کئی کئی را تیں گز ارتے اللہ کی عبا دت کر تے کبھی 3 راتیں ٹھر ے رہتے کبھی 7 راتو ں تک کبھی پو را مہینہ وہا ں گز ار دیتے آپ جو کھا نا سا تھ لے جا تے جب ختم ہو جا تا تو گھر تشر یف لے جا تے یہ کھا نا عا م طو ر پر زیتو ن کا تیل اور خشک رو ٹی ہو تا تھا کبھی کھا نے میں گو شت بھی ہو تا تھا غا ر حرا میں قیا م کے دورا ن کچھ لو گ وہا ں سے گز رتے ان میں کچھ مسکین لو گ ہو تے تو آپ ان لو گو ں کو کھا نا کھلا تے ۔
غا رے حرا میں آپ عبا دت کیسے کیا کر تے تھے روا یا ت میں اس کی وضا حت نہیں ملتی علما اکرام نے اپنا اپنا خیا ل ضرور ظا ہر کیا ہے ان میں سے ایک خیا ل یہ ہے کیا کا ئنا ت کی حقیقت پر غو رو فکر کر تے تھے اور غو ر و فکر لو گو ں سے الگ ہو کر ہی ہو سکتا ہے ۔
نبو ت اور رسا لت عطا فر ما دی
پھر آخر کا ر وہ رات آ گئی جب اللہ نے آپ کو نبو ت اور رسا لت عطا فر ما دی آپ کے نبو ت کے زریعے اپنے بندو ں پر عظیم احسا ن فر ما یا وہ ربیع الا ول کا مہینہ تھا اور تا ریخ ستر ہ تھی ۔ بعض علما نے یہ لکھا کہ وہ رمضا ن کا مہینہ تھا کیو ں کہ قرآن رمضا ن میں نا زل ہو نا شرو ع ہو ا تھا آ ٹھو یں اور تیسری تا ریخ بھی روایا ت میں آئی ہے اور یہ پہلا مو قع تھا جب جبر ائیل وحی لے کر آپ کی خد مت میں حا ضر ہو ئے ۔ اس سے پہلے وہ آپ کے پا س نہیں آئے تھے ۔ جس صبح جبرا ئیل وحی لے کر آئے وہ پیر کی صبح تھی اور پیر کی صبح ہی آپ اس دنیا میں تشر یف لا ئے تھے ۔ آپ فر ما یا کر تے تھے پیر کے دن کا رو زہ رکھو کیو نکہ میں پیر کے دن پیدا ہو ا پیر کے دن ہی مجھے نبو ت ملی ۔
بہر حا ل اس با رے میں روایا ت مختلف ہیں ۔ یہ با ت طے ہے کہ اس وقت آپ کی عمر مبا رک کا چالیس واں سا ل تھا ۔ آپ اس وقت نیند میں تھے کہ جبرا ئیل تشر یف لے آئے ۔ ان کے ہا تھ میں ایک ریشمی کپڑ ا تھا اور اس کپڑ ے میں ایک کتا ب تھی ۔
پہلی وحی
انہو ں نے آتے ہی کہا
اقرا یعنی پڑ ھئے ۔
آپ نے فر ما یا :
میں نہیں پڑ ھ سکتا ۔ یعنی میں پڑ ھا لکھا نہیں ۔ اس پر جبرا ئیل نے آپ کو سینے سے لگا کر بھینچا ۔ آپ فر ما تے ہیں انہو ں ے مجھے اتنے زور سے بھینچا کہ مجھے مو ت کا گما ن ہو ا اس کے بعد انہو ں نےمجھے چھو ڑ دیا پھر کہا
پڑ ھیے یعنی جو میں کہو ں وہ پڑ ھیے اس پر آپ نے فر ما یا ؛
میں کیا پڑ ھو ں ؟
سو رت العق کا نزول
تب جبرا ئیل نے سو رت العق کی یہ آیا ت پڑ ھیں :
تر جمعہ : اے پیغمبر ﷺ آپ پر جو قر آن نا زل ہو کر ے گا اپنے رب کا نا م لے کر پڑ ھا کیجیئے یعنی جب پڑ ھیں بسم اللہ الرحمن الر حیم کہہ کر پڑ ھا کیجیئے جس نے مخلو قا ت کو پیدا کیا ہے جس نے انسا ن کو خو ن کے لو تھڑ ے سے پیدا کیا ہے آپ قر آن پڑ ھا کیجیے اور آپ کا رب بڑا کریم ہے جو چا ہتا ہے عطا کر تا ہے اور ایسا ہے جس نے لکھے پڑ ھو ں کو قلم سے تعلیم دی اور عا م طو ر پر انسا نو ں کو دوسرے زریعو ں سے ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جا نتا تھا ۔
آپ فر ماتے ہیں :
میں نے ان آیتو ں کو اس طرح پڑ ھ دیا جس کے بعد وہ فر شتہ میر ے پا س سے چلا گیا ایسا لگتا تھا گو یا میر ے دل میں تحر یر رکھ دی گئی ہو یعنی یہ کلما ت مجھے زبا نی یا د ہو گئے اس کے بعد آپ گھر تشریف لا ئے ۔
بعض رویا ت میں آتا ہے کہ جبر ائیل جب غا ر میں آئے تو پہلے انہو ں نے یہ الفا ظ کہے تھے:
اے محمد آپ اللہ کے رسو ل ہیں اور میں جبر ائیل ہو ں
آپ کی گھر تشر یف آ وری سے پہلے سیدہ خد یجہ ؑ نے حسب معمول آپ کے لئے کھا نا تیا ر کر کے ایک شخص کے ہا تھ آپ کے پا س بھجوا دیا تھا مگر اس شخص کو آپ غا ر میں نظر نہ آئے ۔ اس شخص نے وا پس آکر یہ با ت سیدہ خد یجہ ؑ کو بتا ئی ۔ انہو ں نے آپ کی تلا ش میں آپ کے عزیز واقارب کے گھر آدمی بھیجے ۔ مگر آپ وہا ں بھی نہ ملے اس لئے سیدہ خد یجہ پر یشا ن ہو گئیں ۔ وہ ابھی اس پر یشا نی میں تھیں کہ آپ تشر یف لے آئے آپ نے جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اس کی تفصیل سیدہ خد یجہ سے بیا ن فر ما ئی اور حضر ت جبرا ئیل کا جملہ بھی بتا یا کہ اے محمد آپ اللہ کے رسو ل ہیں