حضور اکرم ص کے اصحاب رضی اللہ تعالی عنہم کے لیے گھر تنگ پڑ گیا، ان کی تعداد اڑتیس (۳۸) کے قریب تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فکر لاحق ہوئی کہ اس کلمہ حق اور نئے دین دین اسلام کا برملا اعلان و اظہار ہوچنانچہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ، آنحضور سلام کے قریب ہوئے اور آپ سے اعلان حق اور بیت اللہ جانے کا اصرار کرنے، لگے تو آپ ص نے فرمایا: اے ابو بکر! ہماری تعداد کم ہے، لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ برابر اصرار کرتے رہے حتی کہ رسول کریم باہر تشریف لائے تمام مسلمان بھی مسجد کی اطراف میں چلنے لگے اور ہر آدمی اپنے قبیلہ و خاندان کے ساتھ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حضرت ابو بکر لوگوں کے درمیان خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ، رسول ص تشریف فرما تھے، دوسری طرف مشرکین غصہ سے پھٹ رہے تھے پھر ان مشرکین نے حضور ص حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور ان کو خوب مارا پیٹا، کسی نے طمانچے مارے، کوئی مکے مار رہا تھا اور کوئی لاتیں مار رہا تھا ، مارتے مارتے ان کی حالت غیر ہوگئی اور وہ ہلاکت کے قریب پہنچ گئے پھر بنو تیم نے حضرت ابو بکر کے جسم کو ایک کپڑے میں ڈالا اور ان کو ان کے گھر پہنچایا ، ہوش آنے کے بعد پہلی بات جو ان کے منہ سے نکلی وہ یہ تھی کہ رسول کریم کا کیا حال ہے؟ ام جمیل بنت خطاب نے کہا: ہاں وہ خیریت سے ہیں اور صحیح و سالم ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر کے ہونٹوں میں مسکراہٹ آئی اور چہرہ خوشی سے کھل گیا، پھر یہ کہتے ہوئے بستر سے اٹھے کہ آنحضرت ( اس وقت ) کہاں ہیں؟ ام جمیل نے کہا: وہ اس وقت دار ابن ابی ارقم میں ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم! جب تک میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو جاؤں گا نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ کچھ پیوں گا۔ پھر حضرت ابو بکر جلدی سے آنحضرت کے پاس جانے لگے لیکن جب تکلیف کی شدت کی وجہ سے طاقت نہ ہوئی تو اپنی والدہ ام جمیل کا سہارا لیے دار ابن ابی ارقم میں رسول کریم کے پاس پہنچ گئے آنحضرت ص نے حضرت ابو بکر کو دیکھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جھک گئے اور ان کوچومنے لگے، دوسرے مسلمان بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر جھک گئے، یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ علیہ السلام پر شدت رقت طاری ہو گئی ۔ پھر حضرت ابوبکر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اب مجھے کوئی تکلیف نہیں، سوائے اس کے جو اس خبیث ( عقبہ ) نے میرے منہ پر مارا تھا، یہ میری والدہ ہیں ، اپنے بیٹے پر بڑی مہربان ہیں اور آپ کی ذات بڑی بابرکت ہے، آپ انہیں االلہ کی طرف دعوت دیجیے اور ان کے لیے االلہ سے دعا کیجیے، امید ہے کہ آپ کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو نار جہنم سے بچالے گا۔ چنانچہ رسول اللہ نے ان کے لیے اللہ سے دعا فرمائی تو وہ اسلام لے آئیں ۔
یا رسول اللہ _ کیا مجھے بھی آپ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا ؟
جس روز گرمی کی شدت چہروں کو جھلسا رہی تھی مکہ کی سرزمین گرمی کی آگ سے تپ رہی تھی اور عین دوپہر کے وقت لوگوں کی کھالیں جل رہی تھیں کہ حضور جلدی سے حضرت ابوبکر کے پاس پہنچے آپ صبح یا شام کے وقت ہی تشریف لایا کرتے تھے لیکن اس روز آنحضرت خلاف معمول اس کڑی دوپہر کے وقت تشریف لائے جس روز آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت ملی جب حضرت ابوبکر کی اپنے حبیب اور اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک پر نظر پڑی تو یکدم اٹھ کھڑے ہوئے اور دل میں کہنے لگے رسول اللہ اس وقت ضرور کسی اہم واقعے کی بنا پر تشریف لائے ہیں۔ جب آنحضور تشریف لےآئے تو حضرت ابوبکر آپ کے لیے اپنی چار پائی سے اٹھے اور آنحضرت تشریف فرما ہوئے ۔ اس وقت حضرت ابو بکر کے پاس صرف حضرت عائشہ رض اور حضرت اسماء رض بیٹھی تھیں ۔ حضور اکرم نے فرمایا! ان کو ذرا یہاں سے ہٹا دو۔ ابوبکر صدیق نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ دونوں میری بیٹیاں ہی تو ہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ! پھر حضور نے فرمایا: االلہ تعالیٰ نے مجھے ہجرت کی اجازت دے دی ہے (یہ سن کر ) صدیق اکبر دو زانو ہو کر بیٹھے، آپ کے دونوں رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے، عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے بھی آپ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا؟ رسول اللہ نے فرمایا : اے ابوبکر! ہاں، تجھے میری رفاقت حاصل ہوگی ۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ خدا گواہ ہے کہ مجھے اس سے پہلے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ کوئی شخص خوشی کے مارے بھی روتا ہے، میں نے اس دن ابو بکر کوخوشی کے مارے ) روتے دیکھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال ( جو پانچ ہزار درہم تھے لیا اور حضور اکرم کے ہمراہ ہجرت کے لیے چل پڑے، ابو قحافہ آئے ، وہ بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی بھی جاتی رہی تھی ، بلند آواز میں کہنے لگے: خدا کی قسم! میرا خیال یہ ہے کہ اس نے اپنے مال کی وجہ سے تمہیں تکلیف پہنچائی ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما نے ان سے کہا: ابا جان! ایسی بات نہیں ہے، انہوں نے ہمارے لیے خیر کثیر چھوڑی ہے۔ چنانچہ حضرت اسماء نے گھر کے اس طاقچہ میں جہاں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا مال رکھتے تھے کچھ پتھر لے کر رکھ دیئے اور اس پر کپڑا ڈال دیا پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ابا جان! دیکھو! اس مال پر اپنا ہاتھ رکھیے، جب انہوں نے اپنا ہاتھ رکھا تو انہیں وہاں کچھ رکھا ہوا محسوس ہوا پھر خوش ہو کر کہنے لگے: کوئی حرج نہیں؟ جب وہ تمہارے لیے اتنا مال چھوڑ گیا ہے اس نے اچھا کام کیا، اس سے تمہارا کام بن جائے گا۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ خدا کی قسم ! ! حضرت ابو بکر نے ہمارے لیے کوئی چیز نہیں چھوڑی، میں نے صرف یہ چاہا کہ اس طریقہ سے ان بزرگوں کو خاموش کرا دوں