You are currently viewing سیرت النبی ، مسجد نبوی کی تعمیر مکمل اور صحا بہ کی ہجر ت

سیرت النبی ، مسجد نبوی کی تعمیر مکمل اور صحا بہ کی ہجر ت

آپ نے مسجد نبوی کے وسیع ہونے کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی اور ہوا بھی یہی۔ بعد کے ادوار میں اس کی توسیع ہوتی رہی ہے اور اس کا سلسلہ جاری ہے اور آگے بھی جاری رہے گا۔

مسجد نبوی کے ساتھ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدہ سودہ کے لیے دو حجرے بنائے گئے۔ یہ حجرے مسجد نبوی سے بالکل ملے ہوئے تھے۔ ان حجروں کی چھتیں بھی مسجد کی طرح کھجوروں کی چھال سے بنائی گئی تھیں۔ مسجد نبوی کی تعمیر تک آپ  حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر میں قیام پذیر رہے۔ آپ  نے ان کے مکان میں نچلی منزل میں قیام فرمایا تھا، حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کی بیوی نے آپ  سے درخواست کی تھی: “حضور! آپ اوپر والی منزل میں قیام فرمائیں۔” اس پر آپ  نے جواب میں فرمایا: “مجھے نیچے ہی رہنے دیں  کیونکہ لوگ مجھ سے ملنے کے لیے آئیں گے، اسی میں سہولت رہے گی۔

” حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں: “ایک رات ہماری پانی کی گھڑیاں ٹوٹ گئی۔ ہم گھبرا گئے کہ پانی نیچے نہ ٹپکنے لگے اور آپ  کو پریشانی نہ ہو  تو ہم نے فوراً اس پانی کو اپنے لحاف میں جذب کرنا شروع کر دیا  اور ہمارے پاس وہ ایک ہی لحاف تھا اور دن سردی کے تھے۔” اس کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری نے پھر آپ  سے اوپر والی منزل پر قیام کرنے کی درخواست کی  آخر آپ  نے ان کی بات مان لی۔ ان کے گھر کے قیام کے دوران آپ  کے لیے کھانا حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت سعد بن عبادہ کے ہاں سے بھی آتا تھا۔ اس تعمیر سے فارغ ہونے کے بعد حضور اکرم  نے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت زید بن رافع کو مکہ بھیجا تاکہ حضور اکرم  کے گھر والوں کو لے آئیں۔ حضور اکرم  نے انہیں سفر میں خرچ کرنے کے لیے 500 درہم اور دو اونٹ دیئے۔

isalmi-man-chalo-masjid-com

رہبر کے طور پر ان کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو بھیجا۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے یہ اخراجات برداشت کیے۔ ان کے گھر والوں کو لانے کی ذمے داری بھی انہیں ہی سونپی گئی۔ اس طرح یہ حضرات مکہ معظمہ سے آپ  کی صاحب زادیوں حضرت فاطمہ، حضرت ام کلثوم، آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ، اور دایہ ام ایمن جو زید بن حارثہ کی اہلیہ تھیں اور ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید کو لے کر مدینہ منورہ آگئے۔ حضرت اسامہ بن زید آپ کی دایا کے بیٹے تھے اور آپ کی دایا کے بیٹے تھے اور آپ کو حد درجے عزیز تھے۔ حضرت زینب چونکہ شادی شدہ تھیں اور ان کے شوہر اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہیں ہجرت کرنے سے روک دیا گیا۔ حضرت زینب نے بعد میں ہجرت کی تھی اور اپنے شوہر کو کفر کی حالت میں مکہ ہی چھوڑ آئی تھیں۔ ان کے شوہر ابوالعاص بن ربیع تھے۔ یہ غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کے لشکر میں شامل ہوئے، گرفتار ہوئے، لیکن انہیں چھوڑ دیا گیا، پھر یہ مسلمان ہو گئے تھے۔ آپ  کی چوتھی بیٹی حضرت رقیہ اپنے شوہر حضرت عثمان کے ساتھ پہلے ہی حبشہ ہجرت کر گئی تھیں۔ یہ بعد میں حبشہ سے مدینہ پہنچے تھے۔ حضرت ابو بکر کے گھر والے بھی ساتھ ہی مدینہ منورہ آگئے۔ ان میں ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام رومان، حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی بہن حضرت اسماء شامل تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق کے بیٹے حضرت عبداللہ بھی ساتھ آئے۔ حضرت ابو بکر صدیق کی زوجہ حضرت ام رومان کے بارے میں نبی اکرم  نے فرمایا تھا: “جس شخص کو جنت کی حوروں میں سے کوئی حور دیکھنے کی خواہش ہو، وہ ام رومان کو دیکھ لے۔” ہجرت کے اس سفر میں حضرت اسماء کو مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے قبا میں ٹھہرنا پڑا۔ ان کے ہاں حضرت عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔ بچے کی پیدائش کے بعد مدینہ پہنچیں اور اپنا بچہ آپ  کی گود میں برکت حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ یہ ہجرت کے بعد مہاجرین کے ہاں پہلا بچہ تھا۔ ان کی پیدائش پر مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی، کیونکہ کفار نے مشہور کر دیا تھا  کہ جب سے رسول اللہ  اور مہاجرین مدینہ آئے ہیں، ان کے ہاں کوئی نرینہ نہیں ہوئی کیونکہ ہم نے ان پر جادو کر دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کی پیدائش پر ان لوگوں کی یہ بات غلط ثابت ہو گئی، اس لیے مسلمانوں کو بہت خوشی ہوئی۔

مسجد نبوی کی تعمیر مکمل ہو گئی تو رات کے وقت اس میں روشنی کا مسئلہ سامنے آیا۔ اس غرض کے لیے پہلے پہل کھجور کی شاخیں جلائی گئیں۔ پھر حضرت تمیم داری مدینہ منورہ آئے تو وہ اپنے ساتھ قندیلیں، رسیاں اور زیتون کا تیل لائے۔

Leave a Reply