صدقہ فطروفدیہ

صدقہ فطر کی مقدا ر کے سلسلے میں اصل یہ ہے کہ ایک حصہ کھجور یا ایک حصہ جو دیے جا ئیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے بخا ری مر وی ہے ۔

پھر حضرات صحابہ و علما نےدوسرے انا ج جوں میں سے ایک حصہ کھجو ر یا ایک حصہ جو کی قیمت کے برا بر دینے کو جا ئز قرا ر  دیا ہے حضرت امیر معا ویہ ؑ نے ایک حصہ کھجور یا جو مو زنہ فر ما کر ارشا د فرما یا کہ میرے خیا ل میں گیہوں  کا ایک مد دو مد کے  برا بر ہے ۔اس کا مطلب یہ ہو ا کہ نصف حصہ گیہوں ایک حصہ جو یا کھجو ر کے برا بر ہے کیو نکہ ایک حصہ چا ر مد کا ہے ۔

جیسا کی شا می رحمت اللہ نے لکھا ہے جب آپ ﷺ کے خیا ل میں ایک مد گیہوں دو مد کھجور کے برا بر ہیں تو دو مد گیہوں چا ر مد کھجو ر یا جو کے برا بر ہو ئے اور دو مد کا آدھا حصہ اور چا ر مد کا ایک حصہ ہو تا ہے لہذا اکثر علما نے اس کے مطا بق صدقہ فطر کی مقدا ر میں یہ لکھا ہےکہ کھجو ر  یا جو دینا ہو تو ایک حصہ یا ا یک گیہوں دینا ہو تو آدھا حصہ دینا ہو گا ۔

پھر جب علما نے دیکھا کہ مد ، حصہ ،رطل وغیرہ شرعی و فقہی اوزا ن و پیما نے رواج پذیر نہ رہے اور ان کی جگہ تو لہ ما شہ سیر وچھٹا نک وغیرہ جد ید پیما نو ں و اوزا ن نے لے لی ہے تو انہوں نے نہا یت تحقیق و کا وش سے قدیم پیما نو ں اور اوزا ن ان جدید اوزا ن و پیما نوں جو ہما رے لحا ظ سے قدیم ہو چکے ہیں میں تبد یل کیا گیا اور لو گو ں کے لیئے سہو لت و آسا نیا ں پیدا فرما دیں چنا ں چہ اس مسلے پر سب سے زیا دہ محقق و محفصل رسا لہ حضرت مولا نا مفتی محمد شفیع صا حب نے اوزان شر عیہ کے نا م سے لکھا ہے جا آپ کے مجمو عہ رسا ئل جو اہر الفقہ میں شا مل ہے اور اس کے بڑ ے بڑ ے اکا بر علما نے تقریظ کی اور تعریف فرما ئی ہے اس رسا لے میں حضرت مفتئ صا حب نے بڑی لمبی بحث فرما ئی ہے اس کا خلا صہ یہ ہے کہ حصہ کی مقدا ر مثقال کے حسا ب تین سیر چھ چھٹا نک ہے اور آ دھے حصہ کی مقدا ر ڈیڑھ سیر تین چھٹا نک ہے اور درہم کے حسا ب سے حصہ کی مقدا ر تین سیر چھ چھٹا نک تین تو لہ اور نصف حصہ کی مقدا ر سا ڑ ھے تین سیر چھ ما شہ اور نصف حصہ کی مقدا رپو نے دوسیر تین ما شے ہو تی ہے ان تینوں مقداروں میں تھوڑا تھوڑا فر ق ہے مگر اخری مقدا رمیں آدھا سیر زیا دہ بتا یا گیا ہے اس لیے احتیاط اسی  میں ہے کہ صدقہ فطر میں اسی لحاظ سے نکا لا جا ئے یعنی گیہوں دینا ہو تو پو نے دو سیر تین ما شے کے حسا ب سے دینا چا ہیے اسی میں احطیا ط ہے اور جا وغیرہ دینا ہو تو اس کا دگنا یعنی سا ڑھے تین سیر چھ ما شے دینا چا ہیے ۔

مگر اب مشکل یہ ہے کہ تو لہ چھٹا نک اور سیر کا زما نہ ہو گا اور اب ہم اس کا بل ہی نہیں رہے کہ ان چیزوں سے حسا ب کر سکیں بلکہ یہ الفا ظ عام طور پر غیر ما نو س ہیں اور اس سے حسا ب و کتا ب تقریبامفقود ہو گیا ہے اور اس کی جگہ گراموں نے لے لی ہے اور یہ قول میرے استا د حضر ت مو لا نا مفتی مہربا ن علی صا حب رحمت اللہ کا ہے ۔

آج کل چو ں کہ میڑک اوزا ن اور پیما نوں کا عا م رواج ہو گیا ہے اس لیے کسی وزن کو تو لے ما شے سے سمجھنا بھی اب اتنا آسا ن نہ رہا جتنا کہ کلو گرا م اور ملی گرا م اور کلو میڑوغیرہ سے سمجھنا اور سمجھا نا سہل ہو گیا اس لیے اب علما کو یہ ضرورت محسو س ہو ئی کہ ان شرعی اوزان کو کلو گرام ملی گرام وغیرہ میں منتقل کیا جا ئے ۔

یہ با معلوم و مسلم ہے ایک سیر 933 گرام ، 120 ملی گرام کے برابر ہو تا ہے اور ایک ما شہ 972 ملی گرام کا ہوتا ہےاس حساب سے پو نے دو سیر تین ما شہ کو گراموں میں تبدیل کرنے سے گیہوں کے حسا ب سے ایک صدقہ فطر کی صحیح مقدا ر ایک کلو 430 گرم، 872 ملی گرام ہو تی ہے اور مزید احتیا ط کےلیے بہتر ہے کہ ایک کلو 750 گرام دے دیا جا ئے یعنی پونے دو کلو گیہوں یا اس کی قیمت دے دئی جا ئے ۔ میرے استاد مولا نا مہر با ن علی بڑوتوی رحمت اللہ نے بھیامداد لا وزان میں یہی تحقیق فرما ئی ہے ۔

اگر کو ئی اس سے زیا دہ دے سے تو جا ئز ہے البتہ وا جب وہی مقدا ر ہے جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے یہ مقدار گیہوں کی بیا ن کی گئی ہے اور اگر جو یا کھجور اینا ہو تو اس کا دو گنا دینا چا ہیے یعنی سا ڑھے تین کلو اور ان مذ کو رہ چیزوں کے علا وہ کو ئی اور چیز مثلا چا ول دینا ہو تو پو نے دو کلو گیہوں یا سا ڑھے تین کلو جو کی قیمت کے برا بر چا ول دینا چا ہیے ۔

اس لیے اگر پو نے دو کلر گیہوں یا ان کی قیمت دی جا ئے تو بہتر اور احتیا ط ہے ورنہ ایک کلو گیہوں یا ان کی قیمت دے دیں صدقہ فطر ادا ہو جا ئے گا اور یہ مقدار گیہوں کی ہے اگر جو یا کھجو ر دینا ہو تو اس کا دو گنا دینا ہو گا یعنی احتیا ط پر عمل کرنے میں سا ڑھے تین کلو ورنہ تین کلو 272 گرام یا اس کے برابر کی قیمت ۔