شب قدر کی جو طا ق را تیں ہیں ان راتوں میں سےاگر ہر رات کے متعلق کچھ حدیث میں ذکر ہو تو تحر یر فرمائیں تا کہ مزید شو ق و رغبت کا با عث ہو ؟
بہت اچھا ہر ایک رات کے متعلق علیحدہ علیحدہ تحریر کیا جا تا ہے ۔
اکیسویں شب
آنحضرت ﷺ نے فر ما یا کہ مجھ کو خو اب میں شب قدر معین کر کے دکھلا ئی گئ جس ی میں بھلا دیا گیا لیکن یہ تحقیق ہے کہ میں نے خو ا ب میں اس رات کی صبح کو آب و گل کے اندراپنے کو سجدہ میں دیکھا ہے ۔ پس تلا ش کرو اس کو پچھلے عشرہ اور اس کی وتر را توں میں راوی حد یث کہتے ہیں کہ جو را ت حضو ر ﷺ نے خو اب میں دیکھی اس میں با رش ہو ئی مسجد کی چھت شا خ خرما کی بنی ہو ئی ےتھی وہ ٹپکی میری آنکھوں نےحضو ر کرام ﷺ کو اس حا ل میں دیکھا ہے کہ آپ پیشا نی پرآ ب و گل کا ا ثر تھا اور یہ اکیسویں رات کی صبح تھی آنحضرت ﷺ کی آ نکھوں نے شب قدر کو دیکھا را وی کی آ نکھوں نے شب قدر کے دیکھنے والے محبو ب کو دیکھا ۔ یہ راوی حضر ت ابو سعید خدری ؑ ہیں دید مصطفٰی ﷺ کی اور ان کی پیشا نی پر شب قدر کے نشا ن دیکھنے کی لذ ت اور مسر ت کا اظہا ر (فبصرت عینا ی ) سے کیا اور تا کید بھی ہے فتا وٰی قا ضی خا ن مین ہیں آ نحضرت ﷺ عشرہ وسطی کا اعتکا ف کر کے فا رگ ہو ئے تو حضرت جبر ائیل نے حا ضر ہو کر عرض کیا جس کو آپ طلب کرتے ہیں وہ تو آپ کے پیچھے ہے اس لیے بعض نے استدلال کیا ہے کہ وہ اکیسویں شب ہے ۔
تیئسویں شب
حضرت عبداللہ بن انیس ؑ نے حا ضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مین جنگل میں رہتا ہو ں وہا ں ہی نما زیں ادا کر لیتا ہو ں مگر مجھے ایک رات ایسی فر ما دیجیئے کہ رمضا ن کی را توں میں وہ شب قدر ہو تا کہ اس رات مسجد نبوی ﷺ مین حا ضر ہو کر عبا دت کروں ۔ آم نے فرما یا تیئسویں شب کو آجاو ان کے صا جز اداہ سے پو چھا گیا کہ آپ کے والد کا کیا عمل تھا ۔ کہا عصر پڑھ کر مسجد میں دا خل ہو تے تو پھر صبح ہی نما ز پڑ ھ کر نکلتے تھے دروازہ مسجد پر اپنی سوا ری پا تے اس پر سوا ر ہو کر جنگل چلے جا تے پس اس حدیث سے تیئسویں شب کی عظمت شا ن ظا ہر ہو ئی کہ عبد اللہ بن انیس ؑ ہر سا ل اسی تا ریخ میں اہتمام فرما تے تھے ۔ مکمن ہے کہ یہ اختلا فا ت لیلۃالقدر با اختلا ف اشخا ص ہو ان کو ثواب اسی شب میں ملتا ہو یا جس سا ل آنحضرت ﷺ نے ان کو مسجد میں آنا کے لیے فرما یا اس سا ل تیئسویں کو لیلۃالقدر تھی آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہو گیا ان کو مطلع کر دیا وہ سمجھے کہ ہر سا ل اسی تا ریخ کو ہو تی ہےبہر حا ل آ نحضرت ﷺ نے ان کے ہر سا ل اس تا ریخ میں اہتما م فر ما نے پر انکا ر نہیں فرما یا اور یہ وہ رات ہے جس کی طر ف ان کو حضور اکرام ﷺ نے رہبری فرما ئی ۔ پھر کیوں نہ ہر سا ل حضرت عبداللہ اس کی قدر کرتے کہ یہی لا ئق قدر شب قدر ہے ۔
پچیسویں شب :
عبا دہ بن صا مت ؑ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ با ہر تشریف لا ئے تا کہ لیلتہ القدر کی خبر یں دیں فلا ں فلا ں نے جھگڑا کیا پس شب قدر کی پہچا ن اُٹھا لی گئی
شا ید تمہا رے لئے یہ بہتر ہو پس اس کی تلا ش کرو 29 اور27 اور 25 میں اس حد یث سے یہ بھی معلو م ہو ا یہ دشمنی اور لڑائی جھگڑوں سے انسان بھلا ئی اور بر کتو ں سے محر وم ہو جا تا ہے اور یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپﷺ نے شب قدر کا تین راتو ں میں ہو نا ظا ہر فر ما یا اُن میں ایک 25 کی بھی رات ہے
مر اقی الفا ح میں ہے کہ حضرت عکرمہ ؑ تو 25 ویں شب کے ہی قا ئل ہیں لہذا قیا م لیل کے اعتما م میں اس سے غا فل نہ رہیں اگر شب قدر رہے تو قیا م لیلتہ القدر کی بھی فضیلت اس کے ہا تھ سے نہیں گئی جو مو جب غفران ہے
ستا ئیسویں شب :
راوی حدیث زرین حبیش کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب سے سوال کیا کہ آپ کے بھا ئی عبد اللہ بن مسعو د کہتے ہیں کہ جو شحض تما م سا ل قیا م الیل کر ے وہ شب قدر کو پا سکے گا آپ ﷺ نے فر ما یا اللہ پا ک ان پر رحم کر ے یہ اس لئے انہو ں نے کہا کہ لو گ بھروسہ نہ کر بیٹھیں ورنہ عبداللہ ابن مسعود کو خو ب علم ہے کہ شب قدر رمضا ن میں ہےاور وہ بھی رمضا ن کے پچھلے عشرہ میں ہے اور اس میں بھی اس کو کو ئی شک نہیں ہے کہ وہ 27ویں کی شب ہے پھر قسم کھا کر جزم اور وثو ق کے ساتھ ابی بن کعب نے کہا کہ شب قدر 27 ویں کی ہی رات ہے میں سے عرض کیا کہ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں اے ابا منذر ( یہ کنیت ہے ابی ابن کعب کی ) فر ما یا اُس نشا ن کے سبب کہتا ہو ں جس کی خبر آپﷺ نے د کہ اُس دن آفتا ب نکلے گا کہ اس میں رو شنی نہیں ہو گی میں نے 27 ویں کی صبھ دیکھا کہ آفتا ب ایسا ہی نکلا حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اس لئے 27 ویں شب کو ظا ہر نہیں کیا کہ لو گ با قی راتو ں کے قیا م کو چھو ڑ دیں گے اور اسی پر بھر وسہ کر لیں گے
انتیسویں شب : اس شب کے لئے وہ حد یث ہے جو 25 ویں رات کے بیا ن میں گزری اس میں آ پ نے 29 ویں شب کے متعلق بھی فر ما یا کہ اس شب میں شب قدر کو تلا ش کروشب قدر کی راتوں میں چو نکہ یہ آخری رات ہے اس لئے پہلی راتوں میں جو کچھ کسر رہ گئی اس میں اس کی تلا فی کی کو شش کا جا ئے اور پو رے اہتما م سے شب بیداری میں مصروف رہنا چا ہیئے نہ معلو م آئندہ سا ل حیا ت وفا کر ے یا ں نہیں