بيماريوں کے جراثيم کو مارنا عين مصلحت ہوتا ہے ۔قومِ لوط کی اخلاقی پستی جب حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالٰی نے اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دينا ہی مناسب سمجھا ۔حضر ت لوط عليہ السّلام کے گھر فرشتوں کو نہايت خوبصورت لڑکوں کی صورت ميں بھيجا گيا ۔قومِ لوط خوشياں مناتی ہوئی آئی ۔اور حضرت لوط عليہ السّلام کے گھر کو گھير ليا ۔وہ کيا جانتے تھے کہ خوبصورتی کے روپ ميں ان کی تباہی کا سامان مہّياکيا گيا ہے ۔کتنی ہی بد نصيب قوم تھی کہ اپنی بربادی پر قہقہے لگا کر وقت کے نبی سے قيل و قال کر رہی تھی ۔خُدا کی کارسازياں بھی عجيب ہيں ۔چاہے تو يوسف عليہ السّلام کو کنوئيں ميں پھينک کر ۔گھر سے بے گھر کرکے ۔بازار مصر ميں بيچ کر زنداں کی سختياں دے کر اس کے عروج کے زينے طے کروائے،اور چاہے تو قوم ِ لوط کے سامنے حسن رچا کر ان سے قہقہے لگوا کر جہنمّ واصل کردے ۔
جب لوط عليہ السّلام کی قوم نے آپ سے مطالبہ کيا کہ وہ ان لڑکوں کو ان کے حوالے کر ديں ۔تو لوط عليہ السّلام نے بڑے مؤ ثر انداز ميں قوم کو تقویٰ کی تلقين کی ۔ فرمايا :۔
قَا لَ انَّ ھٰوُ َلٓ ٕ ضَيْفِیْ فَلاَ تَفْضَعُوْن ِ ہ وَ اتَّقُوا اللہَ وَلاَ تُخْزُ وْن ِ ہ ( الحجر : ٦٩،٦٨ )
“لوط ( عليہ السّلام ) نے فرمايا ۔بے شک يہ ميرے مہمان ہيں ۔پس تم ميری فضيحت نہ کرو ۔اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو “۔
جب حضر ت لوط عليہ السّلام کی قوم نے اپنے نبی کی دعوت کو نہ سُنا ،تو وہی لڑکے اُن کے عذاب کا باعث بنے ،اور قومِ لوط کو ايک چنگھاڑنے لے ليا ۔اس طرح عذابِ الٰہی کا وعدہ پورا ہوا ۔
قومِ لوط کو عذاب ميں گرفتار کرنے کی وجہ يہی تھی کہ وہ بدکاری اور بد فعلی کے اَڈّے جما کر فحاشی ،عريانيت،زنا کاری اور لواطّت کا درس ديتے تھے ۔ان کے اس قومی نوعّيت کے جرم پر رب العزّت نے انہيں زمين ميں دھنسا ديا ۔
ہلاکتِ قومِ لوط سے ہميں عبرت حاصل کرنی چاہيے اور بدکاری اور اس کے مقدمات سے مکمل اجتناب برتنا چاہيے ۔