ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ ﷺ کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے بڑے احسانات کئے ھیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی ﷺ پر نہیں کئے۔
پھر فرمایا میں بیٹھا ھوا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا اے محمد ﷺ! اللہ تعالیٰ حکم دیتے ھیں کہ میں نے آپ (ﷺ) کے پاس اپنی کتاب بھیجی اور اس کتاب میں ایک سورت ایسی بھیجی ھے کہ اگر وہ سورۃ تورات میں ھوتی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امّت میں سے کوئی شخص یہودی نہ ھوتا۔ اور اگر یہ سورہ انجیل میں ھوتی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امّت میں سے کوئی شخص نصرانی نہ ھوتا۔ اور اگر یہ سورۃ زبور میں ھوتی تو حضرت داؤد علیہ السلام کی امّت میں کوئی شخص مغ (بت خانے کا خادم) نہ ھوتا۔ یہ سورۃ میں نے قرآن میں اس لئے اتاری ھے کہ آپ (ﷺ) کے امّتی اس سورہ کی تلاوت کی برکت سے قیامت کے روز دوزخ کے عذاب سے اور قیامت کی ھولناکیوں سے بچ جائیں۔
جبرائیل علیہ السلام نے مزید فرمایا: “اے محمد ﷺ )اس خدا کی قسم جس نے آپ (ﷺ) کوتجھے تمام کائنات کےت لئے برحق نبیﷺ بنا کر بھیجا ھے اگر روئے زمین کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام عالم کے درخت قلم بن جائیں اور سات آسمان اور سات زمینیں کاغذ بن جائیں پھر بھی ابتدائے عالم سے قیامت تک لکھتے رھنے کے باوجود اس سورۃ کی فضیلتیں نہیں لکھی جا سکیں گی۔
خواجہ ادام اللہ بقاء نے فرمایا ھے کہ سورۃ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لئے شفا ھے۔ جو بیماری کسی علاج سے ٹھیک نہ ھو تو سورہ فاتحہ کو صبح کے فرضوں اور سنتوں کے درمیان بسم اللہ شریف کے ساتھ اکتالیس بار پڑھے اور پھونک مارے اللہ تعالیٰ اسے اس سورۃ کی برکت سے شفا بخشیں گے۔
خواجہ معین الدین چشتی ؒ “دلیل العارفین”
بہ شکریہ حکایاتِ اولیاء