ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہو گی۔
باب:
جس نے اپنے لونڈی غلام کو زنا کی جھوٹی تہمت لگائی اس کا گناہ
باب:
مکاتب اور اس کی قسطوں کا بیان، ہر سال میں ایک قسط کی ادائیگی لازم ہوگی
اور (سورۃ النور میں) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ والذين يبتغون الکتاب مما ملکت أيمانکم فکاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا وآتوهم من مال الله الذي آتاکم تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو بھی مکاتبت کا معاملہ کرنا چاہیں۔ ان سے مکاتب کرلو، اگر ان کے اندر تم کوئی خیر پاؤ۔ (کہ وہ وعدہ پورا کرسکیں گے) اور انہیں اللہ کے اس مال میں سے مدد بھی دو جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔ روح بن عبادہ نے ابن جریح (رح) سے بیان کیا کہ میں نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے پوچھا کیا اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ میرے غلام کے پاس مال ہے اور وہ مکاتب بننا چاہتا ہے تو کیا مجھ پر واجب ہوجائے گا کہ میں اس سے مکاتبت کرلوں؟ انہوں نے کہا کہ میرا خیال تو یہی ہی کہ (ایسی حالت میں کتابت کا معاملہ) واجب ہوجائے گا۔ عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا، کیا آپ اس سلسلے میں کسی سے روایت بھی بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ (پھر انہیں یاد آیا) اور مجھے انہوں نے خبر دی کہ موسیٰ بن انس نے انہیں خبر دی کہ سیرین (ابن سیرین (رح) کے والد) نے انس ؓ سے مکاتب ہونے کی درخواست کی۔ (یہ انس ؓ کے غلام تھے) جو مالدار بھی تھے۔ لیکن انس ؓ نے انکار کیا، اس پر سیرین، عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر ؓ نے (انس ؓ سے) فرمایا کہ کتابت کا معاملہ کرلے۔ انہوں نے پھر بھی انکار کیا تو عمر ؓ نے انہیں درے سے مارا، اور یہ آیت پڑھی فکاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا غلاموں میں اگر خیر دیکھو تو ان سے مکاتبت کرلو ۔ چناچہ انس ؓ نے کتابت کا معاملہ کرلیا۔
لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ بریرہ ؓ ان کے پاس آئیں اپنے مکاتبت کے معاملہ میں ان کی مدد حاصل کرنے کے لیے۔ بریرہ ؓ کو پانچ اوقیہ چاندی پانچ سال کے اندر پانچ قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ عائشہ ؓ نے کہا، انہیں خود بریرہ ؓ کے آزاد کرانے میں دلچسپی ہوگئی تھی، (عائشہ ؓ نے فرمایا) کہ یہ بتاؤ اگر میں انہیں ایک ہی مرتبہ (چاندی کے یہ پانچ اوقیہ) ادا کر دوں تو کیا تمہارے مالک تمہیں میرے ہاتھ بیچ دیں گے؟ پھر میں تمہیں آزاد کر دوں گی اور تمہاری ولاء میرے ساتھ قائم ہوجائے گی۔ بریرہ ؓ اپنے مالکوں کے ہاں گئیں اور ان کے آگے یہ صورت رکھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ صورت اس وقت منظور کرسکتے ہیں کہ رشتہ ولاء ہمارے ساتھ رہے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ پھر میرے پاس نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو خرید کر بریرہ ؓ کو آزاد کر دے، ولاء تو اس کی ہوتی ہے جو آزاد کرے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطاب فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو (معاملات میں) ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کی کوئی جڑ (دلیل) بنیاد کتاب اللہ میں نہیں ہے۔ پس جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جس کی کوئی اصل (دلیل، بنیاد) کتاب اللہ میں نہ ہو تو وہ شرط غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شرط ہی زیادہ حق اور زیادہ مضبوط ہے۔
صحیح بخاری
کتاب: مکاتب کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2560
حدیثِ صحیحہ