رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پریہ یادگار ارشاد فرمایا ’’ہرامت کاایک ’’امین‘‘ہواکرتاہے،اوراے امت!ہمارے ’’امین‘‘ابوعبیدہ بن الجراح ہیں ‘‘۔ مقصدیہ کہ ہرامت میں کوئی شخص بطورِخاص بہت بڑا’’امین‘‘ہواکرتاہے اس تمام امتِ مسلمہ کے وہ خاص اوربہت بڑے ’’امین‘‘ابوعبیدہؓ ہیں ۔
برحق’’امین‘‘
رسول اللہ ﷺ کے اس یادگارارشادسے یقیناحضرت ابوعبیدہ الجراح ؓ کامقام ومرتبہ خوب واضح وثابت ہوجاتا ہے نیز جیسا کہ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ایک بارنجران والوں کاوفدرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،اورعرض کیاکہ اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ہمراہ کسی ایسے شخص کوروانہ فرمائیں جو’’امین‘‘ہو تب آپؐ نے فرمایا: میں تمہاری طرف ایک ایسے شخص کوروانہ کروں گا جوواقعی اوربرحق’’امین‘‘ ہوگا جو واقعی اوربرحق’’امین‘‘ہوگا آپؐ کایہ ارشادسن کر آپؐ کے صحابۂ کرام اس چیزکی تمناکرنے لگے تب آپؐ نے ابوعبیدہ بن الجراح کوان کے ہمراہ روانہ فرمایا‘‘۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کایہ ارشادسننے کے بعدمتعدداکابرصحابہ اس بات کی حسرت اورتمنا کرنے لگے کہ کاش آپؐ اس کام کیلئے مجھے منتخب فرمائیں کیونکہ آپؐ نے پیشگی یہ خوشخبری سنادی تھی کہ میں اس مقصد کیلئے ایک ایسے شخص کومنتخب کروں گا جوواقعی ’’امین‘‘ہوگا لہٰذایہ توخود آپؐ کی طرف سے بہت بڑی گواہی اورخوشخبری تھی اُس شخص کے حق میں کہ جسے منتخب کیا جاناتھا اورتب اس موقع پر آپؐ نے اس کام کیلئے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ کومنتخب فرماتے ہوئے اس وفدکے ہمراہ روانگی کاحکم دیا۔ یقینااس سے حضرت ابوعبیدہ ؓ کی بڑی فضیلت ومنقبت ثابت ہوتی ہے۔
حضرت ابوعبیدہ ؓ کی زیرِقیادت لشکر
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران دور دراز کے علاقوں میں مشرکین ومخالفین کے مختلف قبائل وقتاًفوقتاً سرکشی دکھایاکرتے تھے ،جس پران کی سرکوبی کی غرض سے آپؐ فوجی مہمات روانہ کیاکرتے تھے اُن دنوں متعددبارایساہواکہ آپؐ نے اسلامی لشکرکاسپہ سالارحضرت ابوعبیدہ ؓ کومقررفرمایا اوریوں ان کی سپہ سالاری میں لشکرمنزلِ مقصودکی جانب روانہ ہوا حالانکہ اس لشکرمیں بڑے بڑے صحابۂ کرام ،حتیٰ کہ حضرت ابوبکراورحضرت عمر(رضی اللہ عنہم اجمعین)جیسی جلیل القدر شخصیات بھی موجودہواکرتی تھیں ۔ایسے ہی ایک یادگارموقع پرجب حضرت ابوعبیدہ ؓ کی زیرِقیادت لشکرمدینہ سے بہت دور منزلِ مقصودکی جانب رواں دواں تھا متعدد اکابر صحابہ بھی ان کی زیرِقیادت پیش قدمی کررہے تھے اس دوران لشکراپناراستہ بھٹک گیا،جس کی وجہ سے غیرمتوقع طورپرسخت پریشانی اورشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑا،خوراک کاذخیرہ کافی کم پڑگیا،اس نازک ترین صورتِ حال میں سپہ سالارکی حیثیت سے حضرت ابوعبیدہ ؓ نے خوراک کی تقسیم کاکام خودسنبھال لیا،اورتب آپؓ ہرسپاہی کوروزانہ صرف ایک کھجور بطورِخوراک دیاکرتے،نیزیہ کہ دوسروں کی طرح خودبھی روزانہ محض ایک کھجورپرہی اکتفاء کیاکرتے۔
یوں حضرت ابوعبیدہ ؓ ہمیشہ ہی راہِ حق میں ہرقسم کی تکالیف کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے اوریہ سلسلہ تودینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورسے ہی جاری تھا کہ آخر آپؓ ’’السابقین الاولین‘‘میں سے تھے ابتدائی دورکی وہ رونگٹے کھڑے کردینے والی اورلرزہ انگیزقسم کی آزمائشیں ، مصائب و آلام کے وہ طویل سلسلے،ہجرتِ حبشہ پھرہجرتِ مدینہ اورپھر’’بدر‘‘و’’اُحد‘‘کے میدان میں ان کی جاں نثاری اور سرفروشی کی بے مثال داستانیں ان تمامتر آزمائشوں اورتکلیفوں کے باوجود،ابوعبیدہؓ کے قدم راہِ حق میں کبھی نہ ڈگمگائے۔یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اس جاں نثارساتھی سے ہمیشہ خوش رہے اورتادمِ آخر انتہائی مسرورومطمئن رہے یونہی وقت کا انتہائی سفرجاری رہا حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کامبارک دور گذرگیا۔